لندن ( ہمگام نیوز ) ایران کے ساتھ جنگ کی نقل کرنے والی فوجی مشقوں سے قبل اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ میرے پاس ایران اور عالمی برادری کے لیے ایک واضح پیغام یہ ہے کہ اسرائیل ایران کو ایٹم بم حاصل کرنے سے روکنے کے لیے وہ کرے گا جو اسے کرنا چاہیے۔

ایران کے بارے میں حالیہ اسرائیلی بیانات میں سے زیادہ تر ایران کے ایٹمی پروگرام کی پیشرفت پر شدید تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان بیانات میں یکطرفہ کارروائی کرنے کی دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں۔

تہران کی سفارتی سرگرمیوں کی تازہ ترین لہر سے اسرائیل کی بے چینی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ خاص طور پر چین کی ثالثی میں سعودی عرب کے ساتھ ایران کے سفارتی تعلقات کی بحالی نے اسرائیل کو پریشان کردیا ہے۔

مزید برآں اس سال کے آغاز سے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے چین، شام، انڈونیشیا اور جنوبی امریکہ کے تین امریکی پابندیوں والے ملکوں کیوبا، نکاراگوا اور وینزویلا کے ساتھ مختلف کثیر الجہت تعاون کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔

ابراہیم رئیسی کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے تہران کے تاریخی دورے میں اپنے سعودی ہم منصب شہزادہ فیصل بن فرحان کی میزبانی کی اور خلیج کے تین ملکوں قطر، کویب اورسلطنت عمان میں اپنے ہم منصبوں سے ملاقات کی۔

دوسری طرف امریکہ اور ایران نے مبینہ طور پر تہران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے لیے مذاکرات دوبارہ شروع کردیے۔ ایران نے زیر حراست امریکی شہریوں کو رہا کیا اور امریکہ نے کچھ ایرانی اثاثوں کو غیر منجمد کر دیا۔

اس دوران نیتن یاہو نے بارہا واشنگٹن کو خبردار کیا ہے کہ اسرائیل تہران کے ساتھ کسی بھی معاہدے کا پابند نہیں ہوگا۔ انہوں نے حال ہی میں زور دے کر کہا کہ ہمارا موقف واضح ہے کہ اسرائیل ایران کے ساتھ کسی معاہدے کا پابند نہیں ہوگا اور اپنا دفاع جاری رکھے گا۔

فی الحال سیاسی منظر نامہ قدرے بدلنا شروع ہوگیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ایران تنہائی سے نکل رہا ہے اور وہ اپنے جیسے “مغرب مخالف” ذہنیت کے حامل ملکوں کے ساتھ ممکنہ شراکت تلاش کرنے کے ذریعے کھلے پن کی ایک منتخب حکمت عملی کا استعمال کر رہا ہے۔ ایران سعودی عرب کے ساتھ اپنے بحال ہونے والے تعلقات کو استعمال کرنے کی امید بھی کر رہا ہے تاکہ مصر اور امارات جیسے دوسرے علاقائی کھلاڑیوں کے ساتھ مزید معمول پر آنے والے معاہدوں کا آغاز کیا جا سکے۔

اس سال کے شروع میں جوہری توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی رپورٹنگ کے مطابق ایران میں 84 فیصد تک یورینیم افزود کی گئی ہے۔ یہ وہ صورت حال ہے جو ایٹم بم حاصل کرنے کے لیے درکار 90 فیصد افزدودہ یورنیم کے بالکل قریب پہنچ گئی ہے۔ اسی لیے اسرائیل کو ایران سے لاحق خطرات کا ادراک بڑھ گیا ہے اور ایران کے ایٹم بم بنا لینے کی صلاحیت کے حوالے سے اس کی تشویش بڑھ گئی ہے۔

نیتن یاہو نے اس ماہ کے شروع میں کہا تھا کہ ہمارے خطے میں حقیقت تیزی سے بدل رہی ہے۔ ہم جمود کا شکار نہیں ہیں۔ ہم اپنے جنگی نظریے اور عمل کے اپنے اختیارات کو اپنے نہ تبدیل ہونے والے اہداف کے مطابق کر رہے ہیں۔

مشرق وسطیٰ انسٹی ٹیوٹ میں اسرائیل کے امور کے سینئر فیلو نمرود گورین نے العربیہ انگلش کو بتایا کہ اسرائیل ایرانی خطرے کو بہت سنجیدگی سے لے رہا ہے۔ یہ ایک بڑا علاقائی خطرہ ہے جس کا اسرائیل کو اس وقت سامنا ہے، اس خطرے کو ختم کرنے کی ضرورت کے بارے میں اسرائیل میں سیاسی اتفاق رائے اور عزم موجود ہے۔ اگرچہ اس حوالے سے مختلف سیاسی رہنماؤں کے مختلف خیالات ہوسکتے ہیں کہ کون سا طریقہ کار اختیار کیا جانا چاہیے۔

کونسل آف فارن ریلیشنز میں مشرق وسطیٰ کے مطالعہ کے لیے منسلک سینئر فیلو ہنری بارکی نے کہا کہ کسی کو ایرانی بم سے اسرائیل کے گہرے نفسیاتی خوف کو کم نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ خوف موجود ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر اسرائیل کے تمام فریق متفق ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ایرانی رویے نے ان تصورات کو مزید گہرا کیا ہے۔

موجودہ جغرافیائی سیاسی ہواؤں کے پیش نظر اسرائیل کا ایران کے بارے میں خطرے کی سطح کا ادراک بڑھ گیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ خطرہ ایک حد تک ممکنہ طور پر عمل کے طور پر سامنے آسکتا ہے۔

تاہم بارکی نے کہا کہ اسرائیل معیشت سے لے کر سیاست اور بنیادی ڈھانچے تک تمام شعبوں میں ایران کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے اپنی طاقت کے استعمال کی ہر ممکن ممکن کوشش کرے گا۔

اسرائیل کی موجودہ اور سابق دونوں حکومتوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر اسے اس جانب دھکیلا گیا تو اسرائیل ایران کے خلاف تنہا کارروائی کر ڈالے گا۔ نیتن یاہو نے حال ہی میں کہا ہے ہمیں یقین ہے کہ ہم اپنے طور پر کسی بھی خطرے سے نمٹ سکتے ہیں۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے کسی یکطرفہ بڑے فوجی حملے کا امکان نہیں ہے۔

گورین نے کہا کہ اسرائیل ایران کے مقابلے میں اکیلے کام کرنے کی اپنی صلاحیت پر زور دیتا ہے لیکن گزشتہ برسوں میں وہ واضح طور پر ایران کے مسئلہ سمیت سلامتی کے معاملات پر امریکہ اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کو ترجیح دیتا آرہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل کا بنیادی مقصد ایران کو ایٹمی ریاست بننے سے روکنا ہے۔ امکان ہے کہ اسرائیل اپنے مفادات کو فروغ دینے اور سنجیدہ ارادوں کو پیش کرنے کے لیے مختلف قسم کی کارروائیاں جاری رکھے گا ۔ ایسا لگتا ہے کہ فوجی حملہ اسرائیل کا مطلوبہ طریقہ کار نہیں ہے۔

بارکی نے بھی اس بات سے اتفاق کیا اور کہا ایک بڑی کارروائی کرنے کے لیے اسرائیل کو کم از کم امریکی لاجسٹک اور انٹیلی جنس سپورٹ کی ضرورت ہوگی۔ کچھ غلط ہونے کی صورت میں بھی اسے امریکی مدد کی ضرورت ہوگی۔

بارکی نے کہا اسرائیل کے ایران پر حملے کے دنیا بھر میں اثرات ہوں گے، تیل کی قیمتیں متاثر ہوں گی۔ بین الاقوامی معیشت پر اثر پڑے گا۔ اس سے ایسی تباہی کا امکان ہے جسے کوئی نہیں دیکھنا چاہتا۔

جہاں تک امریکہ کی جانب سے ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف اسرائیلی فوجی حملے میں حصہ لینے کے امکانات کا تعلق ہے یہ کئی اہم عوامل پر منحصر ہے۔

ویچسلر نے کہا کہ اگر اسرائیلی قیادت یہ طے کرتی ہے کہ ایران کے جوہری ہتھیاروں کے حصول کو روکنے یا اس میں تاخیر کرنے کا واحد آپشن فوجی حملہ ہے اور وہ یہ سمجھے کہ ان کے پاس ایران کی طرف سے براہ راست اشتعال انگیزی کے بغیر بھی یک طرفہ طور پر حملہ کرنے کی ضروری صلاحیت ہے تو پھر ایسے حملے میں امریکی شمولیت کا امکان نہیں ہے۔

تاہم اگر ان حالات میں سے کوئی بھی لاگو نہیں ہوتا جیسا کہ اگر براہ راست ایرانی کارروائی کے رد عمل میں اسرائیل حملہ کر رہا ہو یا اسرائیل کی کارروائی امریکی خواہشات سے ہم آہنگ ہوں تو پھر ایسے حملوں میں امریکہ کی شمولیت کا امکان بڑھ جاتا ہے۔