قفقاز (ہمگام نیوز) روس کے صدر ولادی میر پوتین نے واگنر ملیشیا کی اپنے سربراہ ایوگینی پریگوزن کی قیادت میں قلیل مدتی بغاوت کے بعد قوم سے پہلا خطاب کیا ہے اور انھوں نے ’واگنریوں‘ کے سامنے تین اختیار رکھے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ واگنر کے جن ارکان نے بغاوت میں حصہ لیا،وہ یا تو فوج میں شامل ہوسکتے ہیں،اپنے اہل خانہ کے پاس واپس جا سکتے ہیں یا پھر وہ بیلاروس میں جا سکتے ہیں۔

انھوں نے سوموار کی شب قوم سے خطاب میں کہا کہ ’’ہم جانتے ہیں،واگنر گروپ کے جنگجوؤں اور کمانڈروں کی اکثریت بھی روس کی محبِّ وطن ہے۔ وہ اپنے لوگوں اور ریاست کے لیے وقف ہیں۔انھوں نے میدانِ جنگ میں اپنی جرآت وبہادری سے یہ سب ثابت کیا ہے‘‘۔

انھوں نے واگنر فورسز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:’’آج آپ کے پاس وزارتِ دفاع یا قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے ساتھ معاہدے پر دست خط کرکے روس کی خدمت جاری رکھنے یا اپنے اہل خانہ اور دوستوں کے پاس واپس جانے کا موقع ہے‘‘۔

صدر پوتین نے مزید کہا: ’’جو بھی چاہتا ہے،وہ بیلاروس جا سکتا ہے۔ میں نے جو وعدہ کیا تھا، وہ پورا کیا جائے گا۔ میں یہ بات دُہراتا ہوں کہ اب انتخاب آپ کا ہے، لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ روسی فوجیوں کا انتخاب ہوگا جنھوں نے اپنی سنگین غلطی کا احساس کیا ہے‘‘۔

پوتین نے کہا کہ ’’میں نے بغاوت کے آغاز ہی میں خون ریزی سے بچنے کے احکامات دیے تھے اورواقعات کے آغاز سے ہی، میری براہ راست ہدایات پر، بہت زیادہ خون ریزی سے بچنے کے لیے اقدامات کیے گئے تھے۔اس میں وقت لگا، بشمول غلطی کرنے والوں کو دوبارہ سوچنے کا موقع دینا، یہ سمجھنا کہ ان کے اقدامات کو معاشرے نے سختی سے مسترد کر دیا ہے اور روس، ہماری ریاست کے لیے، جس مہم جوئی میں انھیں گھسیٹا گیا، اس کے کیا الم ناک اور تباہ کن نتائج برآمد ہوئے ہیں‘‘۔

انھوں نے یوکرین اور مغرب پر بھی الزام عاید کیا کہ وہ روسی فوجیوں کو ایک دوسرے کو قتل کرتے دیکھنا چاہتے ہیں۔انھوں نے محاذ پر اور نام نہاد جوابی حملے کے دوران میں اپنی ناکامیوں کا بدلہ لینے کا خواب دیکھا اوراپنے ہاتھ رگڑے، لیکن انھوں نے غلط اندازہ لگایا۔

انھوں نے روسی قوم کے جذبہ حب الوطنی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس شہری یک جہتی نے ثابت کر دیا ہے کہ کوئی بھی بلیک میلنگ، داخلی خلفشار پیدا کرنے کی کوئی بھی کوشش ناکام ہو جاتی ہے۔

صدر پوتین نے اپنے خطاب میں روسی فوج، دفاعی اور سکیورٹی اہل کاروں کو بھی سلام پیش کیا:’’میں اپنے تمام فوجی اہلکاروں، قانون نافذ کرنے والے افسروں، اسپیشل سروسز کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو باغیوں کی راہ میں رکاوٹ بنے، اپنے فرائض، حلف اور اپنے عوام کے ساتھ وفادار رہے۔ ہلاک ہونے والے ہیروز اور پائلٹوں کی ہمت اور قربانی نے روس کو الم ناک تباہ کن نتائج سے بچالیا ہے‘‘۔

اگرچہ انھوں نے خاص طور پر پریگوزن کا ذکر نہیں کیا ، لیکن انھوں نے کہا:’’(مسلح) بغاوت کے منتظمین نے اپنے ملک ، اپنے لوگوں کو دھوکا دیا ، ان لوگوں کو دھوکا دیا جو اس جرم میں پھنس گئے تھے۔ انھوں نے ان سے جھوٹ بولا، انھیں گولی مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا، انھیں آگ میں جھونک دیا، تاکہ وہ خود کو گولی مار سکیں۔

پریگوزن نے اختتام ہفتہ پر ایک مختصر بغاوت کا آغاز کیا جس کا اختتام اس وقت ہوا جب انھوں نے ایک معاہدے پر رضامندی ظاہر کرنے کے بعد ماسکو کی جانب اپنی واگنرفورسز کے مارچ کو اچانک ختم کردیا۔اس معاہدے کے تحت روس میں ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی جائے گی اور اس کے بدلے میں انھوں نے بیلاروس میں جلاوطن قبول کرلی ہے۔انھوں نے ناکام بغاوت کے بعد اپنے پہلے بیان میں کہا کہ یہ مارچ بغاوت کی کوشش نہیں بلکہ ایک احتجاجی’’مظاہرہ‘‘ تھا۔

پریگوزن نے ٹیلی گرام پر ایک بیان میں کہا:’’مارچ کا مقصد ویگنر گروپ کی تباہی کو روکنا تھا۔ہم اپنے احتجاج کا مظاہرہ کرنے گئے تھے، نہ کہ ملک کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے‘‘۔

پریگوژن کی بغاوت نے روس کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر بھی زبردست اثر ڈالا ہے۔ سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں کے درمیان عام اتفاق رائے یہ ہے کہ بغاوت نے صدر پوتین کی کمزوری کوآشکارا کر دیا ہے اور ایک ایسے نازک وقت میں جب ان کی افواج کو یوکرین میں شدید جوابی کارروائی اورہزیمت کا سامنا ہے، ان کی سخت گیر حکمرانی کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں۔