تہران(ہمگام نیوز ) ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق کردنژاد مہسا امینی کی پہلی برسی کے موقع پر ہونے والی تقریبات کے دوران میں پاسداران انقلاب سے وابستہ نیم فوجی ملیشیا بسیج کے ایک اہلکار کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ‘ایرنا’ کے مطابق جنوبی صوبہ فارس کے شہر نورآباد میں بسیج کے گارڈز پر دو نامعلوم حملہ آوروں نے اندھا دھند فائرنگ کی ہے جس کے نتیجے میں ایک شخص ’شہید‘ اور تین زخمی ہوگئے ہیں۔
خبررساں ادارے نے فوری طور پر حملہ آوروں کی شناخت یا فائرنگ کے محرکات کے بارے میں تفصیل نہیں بتائی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ صوبہ فارس کی انٹیلی جنس، سکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے حملہ آوروں کو گرفتار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ فائرنگ کے بعد موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
دریں اثناء سپاہ پاسداران انقلاب نے اعلان کیا ہے کہ دارالحکومت تہران کے مغرب میں واقع شہر کرج میں ’’فسادات اور توڑ پھوڑ کی کوششوں‘‘کے الزام میں دُہری شہریت کے حامل ایک شخص کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔
پاسداران نے مشتبہ شخص کی شناخت یا اس کی دوسری قومیت کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں بتائی۔ایرنا کے مطابق ہفتے کے روز حکام نے متعدد گروپوں کو ’افراتفری پھیلانے کی منصوبہ بندی‘ اور ‘دشمن میڈیا’ کی خدمت کے لیے مواد تیار کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
ایجنسی نے مزید کہا کہ زیادہ تر گرفتاریاں متوفیہ مہسا امینی کے آبائی صوبہ کردستان اور ایران کے شمال مغرب اور جنوب میں کی گئی ہیں۔
نیم سرکاری مہرنیوز ایجنسی نے اطلاع دی ہے دیگر افراد کو شمال مشرقی صوبہ شمالی خراسان سے فسادات بھڑکانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔مرکزی شہر اصفہان میں حکام نے امینی کی برسی کے موقع پر’’رائے عامہ کواُکسانے‘‘ کی کوشش پر’’97 افراد کی شناخت‘‘کی ہے اور انسٹاگرام کے 15 پیجز کو بلاک کردیا ہے۔
واضح رہے کہ گذشتہ سال 16 ستمبر کو ایران میں خواتین کے لیے نافذالعمل سخت ضابطہ لباس کی مبیّنہ خلاف ورزی کے الزام میں تہران کی اخلاقی پولیس نے بائیس سالہ مہسا امینی کو گرفتارکیا تھا اور تین روز بعد ان کی پولیس کی حراست ہی میں موت واقع ہوگئی تھی۔ اس کے ردعمل میں ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔
ایران کے مختلف شہروں میں کئی ماہ تک مظاہرے جاری رہے تھے اور ان کے دوران میں تشدد کے واقعات میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان میں سکیورٹی فورسز کے درجنوں اہلکار بھی شامل تھے اور ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ تہران نے غیر ملکی حکومتوں اور ’دشمن میڈیا‘ پر ان ‘فسادات’ کو بھڑکانے کا الزام عاید کیا تھا۔