برلن(ہنگام نیوز ) ‎ایرانی مقبوضہ بلوچستان میں قابض ایرانی پولیس ایک اعلیٰ آفیسر کا ایک کمسن بچی کے ساتھ مبینہ جنسی زیادتی کے بعد حالات کشیدگی کے بعد زاہدان میدان جنگ بن چکا تھا، اس واقعے کا ایک سال مکمل ہونے کے بعد فری بلوچستان موومنٹ نے یورپ سمیت برطانیہ،امریکہ میں مختلف نوعیت کے پروگرامز کا اعلان کیا اس سلسلے میں ہفتہ کے روز 23 ستمبر جرمنی کے شھر ھیمبرگ میں ایرانی سفارت خانے کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا، اس مظاہرے میں الاحواز کے آزادی پسند نمائندوں سمیت کردوں آزادی پسندوں نے بھرپور شرکت کی،

‎مظاہرہ دوپہر کے وقت دو بجے شروع ہوا شام چار بجے تک جاری رہا۔ مظاہرین نے مختلف بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے جن پر زاہدان کے شہدا کی تصاویر کے علاوہ مختلف نعرے درج تھے۔

            ‎مظاہرے میں فری بلوچستان موومنٹ کے کارکنوں کے علاوہ کُرد اور الاحواز کے رہنماؤں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی،مظاہرے کے دوران مظاہرین ایرانی ریاست، مُلا رجیم اور دہشت گرد فوج کے خلاف زبردست نعرے بازی کرتے رہے. مقررین نے کہا کہ ایران کے زیر قبضہ بلوچستان میں ایرانی فوج نے نہتے بلوچوں پر طاقت کا استعمال کرکے سو کے قریب لوگوں کو لقمہ اجل بنایا اور سینکڑوں کو زخمی کیا جبکہ متعددبلوچوں کو گرفتار کیا گیا تھا، یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ایران کے زیر تسلط مقبوضہ بلوچستان میں ایرانی اہلکار کے ہاتھوں ایک کمسن بلوچ بچی سے جنسی زیادتی کے خلاف پرامن احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس کو سبوتاژ اور ختم کرنے کےلیے ایرانی فورسز کی جانب سے تشدد اور طاقت کا بھرپور استعمال کیا گیا اور نہتے بلوچ عوام پر گولیاں برسائیں گئیں، ایرانی زیر تسلط بلوچستان کے شہر زاہدان سے شروع ہونےوالی احتجاجی لہر نے خطہ میں ایک عوامی ابھار شروع کردی جس کو کچلنے کےلیے ایرانی فوج نے شیلنگ کر کے درجنوں لوگوں کوقتل اور سینکڑوں کو زخمی کیا تھا جس کا سلسلہ آج بھی جاری یے ،عام عوام کو اس طرح گولیوں سے نشانہ بنانا اور شیلنگ کرنا نہ صرف انسانی حقوق کی مکمل خلاف ورزی ہے بلکہ بلوچ قوم کی سنگین نسل کشی ہے.

‎مقررین نے مزید کہا کہ ایران اور پاکستان دونوں بلوچ سرزمین پر ایک قابض کے طور پر براجمان ہو کر بلوچ قومی وسائل کو لوٹ رہےہیں اور اپنی قبضہ گیریت کو برقرار رکھنے کےلیے کسی قسم کے پر تشدد اور اندوہناک پالیسی استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں، جس طرح پاکستان بلا کسی طبقاتی، صنفی اور عمری تضاد کے بلوچ قوم کی نسل کشی کرتی آرہی ہے تو ایران بھی ایک قبضہ گیر کے حیثیت سے مسلسل انہی پالیسیوں پرعمل پیرا ہے، اس سے پہلے بھی ایرانی حکومت سینکڑوں بلوچ نوجوانوں کوپھانسی کے پھندوں پر لٹکانے اور بیچ چوراہے پر قتل کرنے جیسے طریقہ کار اختیار کرتی رہی ہے،گزشتہ سال خونین زاہدان سے جاری قتل و غارت کا یہ تسلسل دہائیوں سے جاری ظلم وجبر کے تسلسل کی ہی کڑی ہے. مظاہرے میں الاحواز اور کردوں کے نمائندوں گلارے،کمیار نے اپنے خیالات کا اظہار کرکے ایرانی جبر و استبداد، اُن پر جاری مظالم اور انکی نسل کشی کے تسلسل کو بلوچوں کے ساتھ ایک درد قرار دیا انہوں نے کہا کہ ہم سب اس درد کے ساتھ ایک ہی طریقے سے جی رہے ہیں ہمارا ایک ساتھ مل کر جدوجہد کرنا قبضہ گیر کی تابوت کیلئے آخری کیل ثابت ہوگی، انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ ہمیشہ فری بلوچستان موومنٹ کے دوستوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر جدوجہد کرینگے ۔

‎آخر میں فری بلوچستان موومنٹ کے مقررین نے کہا کہ ہم اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے تمام اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ گولڈ سمت لائن کے دونوں پار بلوچوں پر ہونے والی مظالم پر اپنی خاموشی توڑتے ہوئے قابضوں کے خلاف عملی اقدات اٹھائیں اور جنگی جرائم کے بنیادوں پر دونوں سامراجی قوتوں پر پابندیاں عائد کی جائیں،اگر خاموشی کا یہ تسلسل برقرار رہا اور بلوچستان میں جاری ظلم و ستم پرقابض طاقتوں کو جوابدہ نہیں کیا گیا تو خطے میں ایک انسانی بحران کا خدشہ پایا جاتا ہے جو کہ نہایت ہی تشویشناک ہے۔

‎جبکہ مُظاہرے میں موجود مقررین محمد بخش راجی، بی بگر بلوچ، بانُک سما بلوچ، نوید بلوچ، بھزاد کریم زادی ،امیرارسلان اربابی نے خطاب کیا