لندن(ہمگام نیوز ) حیربیار مری کی تقریر کا ٹرانسکرپٹ جو انہوں نے 30 ستمبر میں منعقد ہونے والے ایف بی ایم سیمینار (لندن) میں کیا تھا۔

حیربیارمری: ایک سال قبل، آج کے دن قابض ایرانی فورسز نے ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے صدر مقام زاہدان میں پُر امن مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ کی تھی اور چند منٹوں میں سو سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیاگیا تھا۔ہمارے بلوچوں کے لیے یہ ایک اور یاد دہانی تھی کہ جب بلوچ انصاف، آزادی اور جمہوریت کے لیے آواز اٹھانے کی کوشش کریں گے تو ان کا قتل عام کر کے انہیں خاموش کر دیا جائے گا۔جو بات بلوچ دشمن (ایران اور پاکستان) بھول رہے ہیں وہ یہ ہے کہ قومیں فوجی طاقت کے سراسر استعمال سے محکوم نہیں ہو سکتیں اور نہ رہیں گی۔ ان کی بندوقیں اور بم ہمیں مار سکتے ہیں لیکن وہ ہماری آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش نہیں کر سکتے۔

زاہدان قتل عام، جسے دی بلڈی فرائیڈے بھی کہا جاتا ہے، نے بلوچوں کو پھر سے بیدار کیا اور اس کے بعد سے مسلسل احتجاج اور غصہ جاری ہے۔

ایران کے زیر تسلط بلوچ نوجوان اس حقیقت کو بھانپ رہے ہیں کہ ایران کبھی بھی بلوچوں کو فارسیوں کے برابر نہیں مانے گا۔ بلوچ یہ بھی سمجھ رہے ہیں کہ جو لوگ بلوچ قومی سوال کو وفاقیت یا نظام کی تبدیلی کے مطالبات سے ملانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ دشمن کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت بلوچ عوام کا اصل نعرہ ’’نہ شاہ نہ شیخ ہمارے خیر خواہ‘‘ بن چکا ہے۔

پاکستان اور ایران 1970 کی دہائی سے بلوچ آزادی کی تحریک کے خلاف کام کر رہے ہیں۔

ستر کی دہائی میں شاہ حکومت نے بلوچ آزادی کی تحریک کو دبانے کے لیے پاکستان کو مالی امداد، فوجی مشیر اور فضائیہ فراہم کی

۔اب ایرانیوں نے چین کی آشیرباد سے پاکستان کو کامیکاز ڈرون فراہم کیے ہیں جس نے مقبوضہ بلوچستان کے دونوں حصوں میں سرمایہ کاری کی ہے۔تاہم، آزادی کے لیے بلوچوں کی تحریک پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے، اور قابضین کے درمیان کوئی بھی تعاون بلوچ عوام کو روک نہیں سکے گا۔ چینی تعاون سے کچھ نہیں بدلے گا۔تاریخی طور پر آج تک کوئی بھی قابض بلوچوں کو فتح نہیں کر سکا۔ منگولوں، پرتگالیوں اور انگریزوں نے کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ ہمیں پختہ یقین ہے کہ موجودہ قابض اور اجتماعی قاتل بھی ناکام ہوں گے اور بلوچوں کی فتح ہوگی۔

بلوچوں کے لیے یہ صفر کا کھیل ہے۔یا تو وہ ہماری سرزمین کو مکمل طور پر لے کر فتح کر لیں یا ہم قابضین سے چھٹکارا حاصل کر لیں۔بلوچوں کی جدوجہد کو روکنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ عالمی برادری نے کبھی بھی بلوچ عوام کی مدد نہیں کی، بلکہ انہوں نے ہماری سرزمین پر قبضہ کرنے والوں کا ساتھ دیا ہے۔

اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری بلوچستان میں زاہدان قتل عام اور ایران اور پاکستان کے دیگر مظالم کو دیکھ چکی ہے لیکن بلوچ قوم پر اِن ریاستوں کے مظالم پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ان کی اپنی ترجیحات اور مفادات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے جرائم کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسا کہ یہ ان کو فائدہ پہنچاتا ہے.اقوام متحدہ ریاستوں کی کلب کی طرح ہے جہاں قوم کی نمائندگی کرنے والے ادارے نمائندگی نہیں کر سکتے بلکہ، صرف ریاستیں اقوام متحدہ کی اسمبلی میں اپنی نمائندگی کر سکتی ہیں۔

اقوام – خاص طور پر – مقبوضہ قومیں اپنی نمائندگی نہیں کر سکتیں۔یہ ظاہر ہے کہ قابض ریاستیں جو مقبوضہ سرزمین میں انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہیں، اقوام متحدہ کے آئی سی جے یا آئی سی سی میں جا کر اپنے خلاف گواہی نہیں دیں گی۔

یہی وجہ ہے کہ ایران کے قبضے میں کردوں، الاہواز کے عربوں اور جنوبی آذربائیجان کے ترکوں جیسی مظلوم قوموں کی نسل کشی اور پاکستان کے قبضے میں بلوچ، پشتون اور سندھیوں کی نسل کشی کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔

بلوچستان پر قابض کہتے ہیں کہ اگر ہم آزاد ہو گئے تو بلوچ عوام ان کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ لیکن درحقیقت وہ پرجیوی parasites ہیں، جو بلوچستان کی دولت، وسائل اور زمین پر زندگی گزار رہے ہیں۔

یہ ایک پرجیوی parasites کی طرح ہے جو اپنے میزبان سے کہتا ہے “اگر ہم الگ ہو گئے تو تم زندہ نہیں رہو گے۔” سچ تو یہ ہے کہ پرجیویparasites زندہ نہیں رہے گا، میزبان Host نہیں۔

پاکستان 230 ملین آبادی کا ملک ہے جو بلوچستان کے وسائل اور دولت سے پروان چڑھ رہا ہے۔پاکستانی بلوچستان سے سونا، تانبا، پیٹرولیم اور بہت کچھ چوری کر رہے ہیں، جس سے پنجاب ترقی کر رہا ہے۔

ریکوڈک اور سیندک سے شروع کرتے ہیں، جو دنیا کے دو بڑے سونے کے ذخائر ہیں، جن کی مالیت کھربوں ڈالر ہے، اور پاکستانیوں کے ہاتھوں لوٹے جا رہے ہیں۔اسی طرح بلوچستان کی قدرتی گیس نہ صرف قابض پنجاب کے ہر گھر کو اپنا کھانا پکانے کے قابل بناتی ہے بلکہ قابض پنجاب کے ہزاروں صنعتوں کا بھی انحصار مقبوضہ بلوچستان کے گیس پر ہی ہے۔اسی طرح بلوچستان میں دس ہزار سے زائد کوئلے کی کانیں ہیں ، (جیسے بولان اور چمالنگ میں) جن سے قابض پاکستانی صنعتیں چل رہی ہیں۔پاکستان اور چین اپنے بیلٹ اینڈ روڈ اقدام کے حصے کے طور پر سی پیک کو آگے بڑھانے کے لیے زبردستی گوادر بندرگاہ تعمیر کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے اِس ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے درجنوں بلوچ لاپتہ، بے گھر بلکہ علاقہ بدر بھی کیئے ہیں ۔

دورِحاضر میں بلوچ عوام پاکستان اور ایران کی چوری کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ دولت بلوچوں کی زمینوں سے نکالی جا رہی ہے، پھر بھی بلوچوں کے پاس ایک وقت کے کھانے کی قوتِ خرید بھی نہیں ہے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ایسا ملک(بلوچستان ) جو 230 ملین پاکستانیوں اور کروڑوں فارسیوں کو پال رہا ہو، لیکن اسے ایسی پوزیشن میں دھکیل دیا جائے جہاں اس کے اپنے ہی لوگوں کا اور تو اور زندہ رہنا بھی مشکل میں ہو؟

میں سمجھتا ہوں کہ یہ وقت ہے کہ مقبوضہ اقوام اپنے اندر مثالی اتحاد پیدا کریں تاکہ آزادی کے لیے اپنی مزاحمت اور کوشش کو تقویت دے سکیں اور مظلوم اور محکوم قوموں کے درمیان وسیع تر اتحاد قائم کیا جا سکے۔

ہم محکوم اقوام کے اتحاد کے بغیر، جابر ریاستیں اور ان کی بی ٹیمیں جیسے پارلیمنٹیرینز اور وفاق ہمارے لوگوں کو گمراہ کرتے رہیں گے، تقسیم کرتے رہیں گے اور ہماری قومی خودمختاری اور آزادی کی جدوجہد کو کمزور کرتے رہیں گے۔

اگرچہ بلوچ عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم چمالنگ قتلِ عام تک محدود نہیں ،بلکہ اسکی کی ایک طویل فہرست ہے، جس میں متعدد اجتماعی قبریں، لاتعداد لاپتہ افراد ‘مارو اور پھینک دو’ پالیسی کے تحت ہزاروں افراد کو قتل کیا گیا، اور حالیہ زاہدان قتل عام شامل ہیں۔

یاد رہے کہ اگر ہم ایک نظریہ(آزادی) پر متحد نہیں ہوئے اور مختلف نظریات میں بٹے رہے تو پھر اسی طرح کے مزید مظالم ہم پر ڈھائے جائیں گے۔ہمارے قابض ہمیں ہمارے مذہبی، جمہوری، سوشلسٹ یا کمیونسٹ گروہوں کی بنیاد پر نہیں دیکھتے بلکہ وہ ہمیں بلوچ دیکھتے ہیں۔ لہٰذا، میرا اپنے لوگوں کے لیے یہی پیغام ہے کہ ہمیں اپنے مشترکہ بلوچ مقصد(آزادی) کو حاصل کرنے کے لیے مضبوط رہنا ہوگا ،آگے بڑھتے رہنا ہے، اور ایک دوسرے کے طریقوں اور اقدار کو قبول کرنا اور ان کا احترام کرنا ہوگا۔

ہم (بلوچ) نے کافی نقصان اٹھائے ،کافی دھوکے کھائے مگر اب مزید نہیں۔ اب ہمیں متحد ہوکر کام کرنا ہوگا۔ ہمیں “ایرانی بلوچ” اور “پاکستانی بلوچ” جیسی اصطلاحات کا استعمال بند کر دینا چاہیے – ہم تمام بلوچ ایک ہیں۔

بلوچ اس سرزمین(بلوچستان )پر اِن قوموں(قابض گجر اور پنجابی) کے وجود سے کافی پہلے بھی تھے۔