ڈھاکا (ہمگام نیوز) روس بنگلہ دیش کے پہلے جوہری پاور پلانٹ کی تعمیر میں 90 فیصد مالی مدد دے رہا ہے اور اسے یورینیم ایندھن کی پہلی کھیپ فراہم کردی ہے۔ روپ پور جوہری پاور پلانٹ جوہری توانائی پیدا کرنے والا دنیا کا 33 واں پلانٹ ہو گا۔
بنگلہ دیش روس کی سرکاری ایٹمی کمپنی روس اٹوم کے تعاون سے دو جوہری پاور پلانٹس میں سے پہلا تعمیر کر رہا ہے۔ 12.65 بلین ڈالر کے اس پروجیکٹ کا 90 فیصد روس قرض کی شکل میں دے رہا ہے جو 28 سال میں قابل ادائیگی ہو گی جب کہ اس میں 10 سال کی رعایتی مدت بھی دی جائے گی۔
جمعرات کے روز بنگلہ دیش میں روسی سفارت خانے میں “جوہری ایندھن کی ترسیل کی تقریب” منعقد کی گئی۔ اس موقع پر وزیر اعظم شیخ حسینہ نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ ایک ویڈیو کانفرنس کے دوران کہا کہ “آج کا دن بنگلہ دیش کے عوام کے لیے فخر اور خوشی کا دن ہے۔”
پوٹن نے شیخ حسینہ سے بات کرتے ہوئے اس پروجیکٹ کی نگرانی کے لیے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کا شکریہ اداکیا۔ دونوں ملکوں میں اس حوالے سے سن 2011 میں باہمی معاہدہ ہوا تھا۔
پوٹن نے کہا، “آج ہم آپ کے ساتھ مل کر صرف ایک جوہری پاور پلانٹ کی نہیں بلکہ ایک مکمل جوہری صنعت کی تعمیر کررہے ہیں۔”
آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی نے سوشل میڈیا پر اپنی جانب سے مبارک باد پوسٹ کی۔
انہوں نے کہا، “بنگلہ دیش جوہری توانائی کی ترقی میں نئے آنے والے ممالک کے لیے کامیابی کی مثال کے طورپر سامنے ہے۔ وہ آئی اے ای اے کی رہنمائی میں اپنے پروگرام کو آگے بڑھا رہا ہے۔”
روپ پور پاور پلانٹ کے بارے میں ہم اور کیا جانتے ہیں؟
روپ پور بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ سے تقریباً 200 کلومیٹر دور واقع ہے۔ کووڈ وبا کی وجہ سے پابندیوں اور اس کے بعد یوکرین پر روس کے حملے کے بعد ماسکو پر عائد پابندیوں کی وجہ سے اس پاور پلانٹ کی تعمیرمیں تاخیر ہوئی۔
اس پاورپلانٹ کے پہلے یونٹ کو، جس کی کل پیداواری صلاحیت 2400 میگاواٹ ہے، اگلے سال جولائی میں کام شروع کرنا تھا لیکن اب اس میں بھی تاخیر ہو جائے گی۔
روسی خبر رساں ایجنسی تاس نے اطلاع دی ہے کہ روپ پور کے جوہری پاور پلانٹ کے ڈیزائن اور تعمیر کا کام روس اٹوم کے انجینئرنگ ڈویژن کے ذریعہ کیا جارہا ہے۔ اس پلانٹ کی مدت کار 60 برس ہو گی اور اس کے آپریشنز کو مزید 20سال تک بڑھانے کا امکان ہے۔
2000 میں سے تقریباً 1500 کارکنوں، جو اس پلانٹ کے آپریشنز میں شامل ہوں گے، کو روس میں تربیت دی جائے گی۔
ڈھاکہ کو ماسکو کی امداد
روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے گزشتہ ماہ بنگلہ دیش کا دورہ کیا تھا۔ وہ سن 1971 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد سے اس ملک کا دورہ کرنے والے پہلے روسی وزیر خارجہ تھے۔
انہوں نے اپنے دورے کے دوران بنگلہ دیش کو یقین دلایا تھا کہ ماسکو یوکرین میں جنگ کی وجہ سے مغربی ممالک کی طرف سے عائد پابندیوں کے باوجود اس منصوبے کو وقت پر مکمل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بنگلہ دیش کوخراب موسم، غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور ایندھن کی درآمدات کی ادائیگی میں دشواری نیز کمزور کرنسی کی وجہ سے سن 2013 کے بعد سے بجلی کے بدترین بحران کا سامنا ہے۔
بنگلہ دیش میں اس وقت بجلی کی پیداوار درآمد شدہ گیس پر منحصر ہے، جس کی قیمت یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے تیزی سے بڑھ گئی ہے۔