ہنوفر (ہمگام نیوز) فری بلوچستان موومنٹ کی جانب سے 11 نومبر یوم قبضہ ایرانی مقبوضہ بلوچستان کی مناسبت سے جرمنی کے شہر ہنوفر میں احتجاجی مظاہرے کا انعقاد کیا گیا۔
میڈیا کو جاری اعلامیے کے مطابق 11 نومبر فری بلوچستان موومنٹ کی جانب سے بین الاقوامی مہمات کا حصہ ہے جہاں فری بلوچستان موومنٹ دنیا کے مختلف مقامات پر پروگرام اور احتجاج کے ذریعے وہاں کی عوام کو آگاہی فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہے جس کے ذریعے مقبوضہ بلوچستان کے حالات اور پاکستانی و ایرانی قبضے کے خلاف بلوچ قومی تحریک کے لئے حمایت اور ہمدردی حاصل کی جاسکے۔
احتجاجی مظاہرہ 11 نومبر ہی کے دن دوپہر دو بجے ہنوفر شہر کے مرکز میں شروع ہوا جو شام 4 بجے تک جاری رہا۔ مظاہرے میں فری بلوچستان موومنٹ کے کارکنوں کے ساتھ ساتھ الاحواز اور دیگر بلوچ سیاسی کارکنوں نے شرکت کی۔ مظاہرین نے مختلف بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر مغربی بلوچستان پر ایرانی قبضے، وہاں پر جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور دیگر ایرانی ریاست کی جانب سے کئے جانے والے مظالم اور جرائم کے خلاف مختلف نعرے درج تھے۔
احتجاجی مظاہرے سے واجہ محمد بخش بلوچ، دانیال بلوچ، خُدا داد بلوچ اور فارس بلوچ نے خطاب کیا۔
مقررین بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ قوم کو انگریز آقاؤں کی مدد اور حمایت سے پاکستان اور ایران نے اپنا غُلام بنا رکھا ہے جو ہماری قومی وجود اور شناخت کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ ہمیں چاہئیے کہ ایک متحدہ قوم کی حیثیت سے اپنی سیاسی آزادی اور قومی خودمختاری کے لئے یک مُشت ہوکر دونوں دشمنوں (پاکستان و ایران) کے خلاف یکساں طریقے سے جنگ لڑیں تاکہ اپنی قومی وحدت اور وجود کی حفاظت ممکن بنا سکیں۔ قومی غلامی وجود کے خاتمے کی جانب سفر کا آغاز ہوتا ہے جس کو قبول کرکے اقوام آہستہ آہستہ اپنی قومی وجود اور شناخت کھو دیتے ہیں مگر پاکستان و ایران جس طریقے سے ہمارے قومی وجود اور شناخت پر حملہ آور ہیں اس سے یہ خطرہ مزید واضح ہوجاتا ہے کہ یہ دونوں ریاستیں چاہتی ہیں کہ بلوچ اپنی قومی شناخت و وجود کھوکر جلدی سے پاکستانیت اور ایرانیت میں بدل جائے، مگر بلوچوں کی طویل اور نہ تھکنے والا مزاہمت حوصلہ افزاء ہے کہ بلوچ نے آج تک اپنی قومی غلامی قبول نہیں کی۔ کمزوریوں کے باوجود بلوچ ایک ایسی تحریک آزادی کے مالک ہیں جس کو توانا اور طاقت ور کرکے بلوچ نہ صرف اپنی قومی شناخت کو بچا سکتا ہے بلکہ اپنی کھوئی ہوئی آزادی حاصل کرکے ایک باوقار اور آزاد قوم حیثیت سے دنیا کے دیگر خوشحال اقوام کی فہرست میں اپنی جگہ بنا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچ قوم گولڈ سمتھ لائین کے دونوں اطراف آباد ہیں اور اس غیر فطری لکیر سے پہلے بلوچ اُس زمین کا مالک تھا۔ اس مصنوعی لکیر کے ذریعے بلوچ کو ایک دوسرے سے کاٹ کر الگ کردیا گیا ہے۔ ان کے مفادات ایک دوسرے سے اس بنیاد پر الگ کردئیے گئے ہیں تاکہ وہ ایک دوسرے سے بیگانگی کی حد تک دور رہیں مگر اس تحریک اور جنگ آزادی نے اگر اس فرق کو مکمل ختم نہیں کیا مگر کُچھ حد تک کم ضرور کیا ہے۔ اس وقت بلوچ اس مصنوعی لکیر کے دونوں اطراف ایک جھنڈے کو اپنی شناخت مان کر اس کے نیچے متحد ہورہے ہیں اور یہ سلسلہ اس جھنڈے کو آزاد شناخت دینے تک یوں ہی جاری رہنا چاہئیے۔ اس یگانگت اور باہمی اعتماد کو دیکھ کر بلوچ کے دونوں دشمن پریشانی کا شکار ہورہے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھی بن کر ایک خاموش یا غیر اعلانیہ اتحاد قائم کرچُکے ہیں جس کے ذریعے بلوچ کو بلوچ ہی کے ذریعے زیر کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ مرحلہ بلوچ قوم کے لئے ایک امتحان ہے کہ وہ اس خطے میں رہتے ہوئے اپنے قومی مفادات کی کس طرح سے حفاظت کریں گے اور دشمن کے سازشوں سے اپنے آپ کو کیسے بچا کر آگے بڑھیں گے۔
مقررین نے مزید کہا کہ 11 نومبر کی حیثیت بلوچ کی تاریخ میں 27 مارچ جیسی ہے اور ہمیں چاہئیے کہ ہم ان دونوں ایام کو یوم سیاہ کی طرح منائیں اور دنیا سمیت اپنے دشمنوں کو یہ پیغام دیں کہ بلوچ پاکستانی مقبوضہ بلوچستان میں رہتا ہوکہ ایرانی مقبوضہ بلوچستان کا رہائیشی ہو وہ غلام ہے اور اپنی قومی بقا اور شناخت کی حفاظت کے لئے یکساں جدوجہد کررہا ہے اور دشمنوں کی سازشوں اور مکاریوں سے وہ اپنے قومی مفادات سے کبھی دستبردار نہیں ہوگا۔