کتاب: فلسفۂ اخلاق کے عناصر

مصنف: جیمز ریچلز — اسٹوارٹ ریچلز

اردو ترجمہ: عمر عدیل

حصہ سوم

– اخلاقی خودغرضیت کے خلاف تین دلائل

1) اخلاقی خودغرضیت اجتماعی اخلاقیات کے خلاف ہیں !

اخلاقی خودغرضیت کو عام طور پر عقل عامہ کو چیلنج کرنے والے نظریہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ تاہم، اسے ہمارے عوامی اخلاقی نقطہ نظر کی حمایت سمجھا جانا بھی ممکن ہے۔

اس کی تشریح ایسے کی جاتی ہے کہ؛ عوامی اخلاقیات چند قواعد کی پیروی پر مشتمل ہے۔ ہمیں سچ بولنا چاہئیے، اپنے وعدوں پر قائم رہنا چاہئیے، دوسروں کو نقصان پہنچانے سے گریز کرنا چاہیئے، وغیرہ وغیرہ۔ پہلی نظر میں، ان فرائض میں کوئی بھی چیز مشترک نذر نہیں آتی، یہ محض مجرد قواعد کا ایک مجموعہ معلوم ہوتی ہے۔ مگر پھر بھی ان میں اتحاد ممکن ہے۔ اخلاقی خود فرضیت پسند یہ کہیں گے کہ یہ تمام فرائض ذاتی مفاد کے بنیادی اصول سے ماخوذ ہیں۔

اخلاقی خود غرضیت کے نظریہ کی ایسی تفہیم کوئی انقلابی خیال نہیں ہے۔ یہ عوامی اخلاقیات کو چیلنج نہیں کرتا؟ یہ نہ صرف حیران کن حد تک اسکی تفہیم و تنظیم کی بہترین کوشش کرتا ہے بلکہ درج بالا فرائض کی معقول وضاحت بھی فراہم کر سکتا ہے۔ جیسے؛

۱) دوسروں کو نقصان نہ پہنچانے کا فرض

اگر ہم دوسروں کو نقصان پہنچانے والی حرکتیں کریں گے تو دوسرے لوگ بھی، ہمیں نقصان پہنچانے سے نہیں ہچکچائیں گے۔ ہمارے دوست نہیں ہوں گے، ہم سے نفرت ہوگی اور گریز کیا جائے گا۔ اور جب ہمیں مدد کی ضرورت ہوگی ہمیں مدد نہیں ملے گی۔ اگر ہمارے جرائم کافی سنجیدہ ہوئے تو، شاید ہم جیل میں بند ہوں گے۔ چنانچہ، دوسروں کو نقصان نہ پہنچانے سے ہمارا اپنا ہی فائدہ ہوتا ہے۔

۲) جھوٹ نہ بولنے کا فرض

اگر ہم دوسروں سے جھوٹ بولیں گے، تو ہماری خراب ساکھ کے تمام مضر اثرات ہمیں بھگتنا ہونگے۔ لوگ ہم پر اعتماد نہیں کریں گے، اور ہمارے ساتھ معاملات سے گریز کریں گے۔ جب انہیں احساس ہوگا کہ ہم نے ان کے ساتھ بے ایمانی کی ہے تو وہ ہمارے ساتھ بھی بے ایمانی کریں گے۔ چنانچہ ہم راست گوئی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

۳) وعدہ وفائی کا فرض

دوسروں کے ساتھ باہمی مفاد کے انتظامات میں شرکت ہمارے اپنے مفاد میں بھی ہے۔ ان انتظامات سے فائدہ اٹھانے کے لئے، ہمیں دوسروں کے وعدوں پر انحصار کرنے کے قابل ہونے کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر ہم خود اپنے وعدوں کا پاس نہیں رکھتے تو ہم دوسروں سے انکے وعدوں کی پاسداری کی توقع بھی مشکل ہی سے کر سکتے ہیں۔ لہذا، ذاتی مفاد کے پیش نظر، ہمیں اپنے وعدوں پر قائم رہنا چاہئیے۔

تھامس ہوبس (Thomas Hobbies) نے اس نہج استدلال کی پیروی کرتے ہوئے تجویز کیا کہ اخلاقی خودغرضیت کا اصول، اس سنہری اصول پر منتج ہوتا ہے کہ؛

ہمیں دوسروں سے بھلائی کرنی چاہئیے تاکہ دوسروں کا “ہمارے ساتھ بھلائی” کرنے کا امکان بہتر ہو۔

کیا یہ دلیل اخلاقی خودغرضیت کو اخلاقیات کے ایک قابل عمل نظریے کے طور پر ثابت کرنے میں کامیاب ہے؟

یہ بہترین کوشش ہوسکتی ہے۔ تاہم، اس کے ساتھ دو سنگین مسائل ہیں۔ سب سے پہلا یہ کہ، دلیل اس قدر ثابت نہیں ہوتی جتنی کہ اسکی ضرورت ہے۔ یہ نظریہ صرف اتنا ظاہر کرتا ہے کہ عام طور پر سچ بولنا، وعدوں پر قائم رہنا اور دوسروں کو نقصان پہنچانے سے گریز کرنا، بندے کے اپنے ہی مفاد میں ہوتا ہے۔ لیکن کوئی صورتحال ایسی بھی ہوسکتی ہے، جب کچھ برا کرنے، جیسے کسی کو مار ڈالنے میں آپ کا مفاد ہو۔ ایسے میں، اخلاقی خودغرضیت یہ نہیں سمجھا سکتی کہ آپ کو وہ برا کام کیوں نہیں کرنا چاہیئے۔ چنانچہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بعض اخلاقی فرائض کو ذاتی مفاد سے اخذ نہیں کیا جاسکتا۔ دوسرا، فرض کریں کہ قحط سے نجات کے لئے خیرات دینا کسی نہ کسی طرح آپکے اپنے مفاد میں بھی ہے۔ مگر اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ایسا کرنے کی واحد وجہ یہی ہے۔ ایک اور وجہ فاقہ کش لوگوں کی مدد کرنا بھی ہو سکتی ہے۔ اخلاقی خود غرضیت کا کہنا ہے کہ دوسروں کی مدد کرنے کی اکلوتی وجہ ذاتی مفاد ہی ہے، مگر در حقیقت، موجودہ دلیل میں سے کچھ بھی اس کی حمایت نہیں کرتا۔

2) اخلاقی خود غرضیت بد اعمالیوں کی حمایت کرتی ہے !

مختلف اخباروں سے لئے گئے ان بد اعمال واقعات پر غور کریں؛

۰ زیادہ سے زیادہ رقم کمانے کے لئے، ایک دواساز نے کینسر کے مریضوں کیلئے کم شدت کی دواؤں (watered-down drugs) کے نسخے لکھے۔

۰ ایک نرس نے ایمرجنسی مریضوں کو مارفین (Morphine) کے بجائے کشیدہ (Sterile) پانی کے ٹیکے اس لئے لگا دیے، تاکہ وہ مارفین بیچ سکے۔

۰ والدین نے اپنے بچے کو تیزاب پلا دیا تاکہ وہ فارمولا ملک کمپنی پر مضر صحت دودھ کے ہر جانے کا جھوٹا دعوی کر سکیں۔

۰ ایک مرد نرس نے دو بےہوش مریضاؤں کی عصمت دری کی۔

۰ ایک 73 سالہ شخص نے اپنی بیٹی کو 24 سال تک ایک تہہ خانے میں قید رکھا اور جبراً اس سے اپنے سات بچے پیدا کروائے۔

۰ ایک 60 سالہ شخص نے اپنے ڈاکیے کو لگاتار سات گولیاں مار کر قتل کر دیا کیونکہ اس پر $90,000 کا قرض تھا اور اس نے سوچا کہ وفاقی جیل بےگھر ہونے سے بہتر ہوگی۔

فرض کیجئے کہ اگر کوئی ایسے اعمال سے واقعی فائدہ اٹھا سکتا ہے تو کیا اخلاقی خودغرضیت ایسے اعمال کی منظوری نہیں دیگی؟ ایسے نظریے کو مسترد کرنے کے لئے یہی کافی محسوس ہوتا ہے۔ مگر، شاید یہ اعتراض اخلاقی خودغرضیت کے ساتھ ذرا غیر منصفانہ لگتا ہو، کیونکہ ان اعمال کو برا کہنا، بداعمالی کے غیر خودغرضانہ تصور کو فرض کرتا ہے۔

3) اخلاقی خودغرضیت ناقابل قبول حد تک صوابدیدی ہے !

یہ دلیل اخلاقی خود غرضیت کی تردید کرسکتی ہے۔ یہ دلیل اس بات کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ دوسروں کے مفادات ہمارے لئے کیوں اہم ہیں۔ لیکن اس دلیل کے تجزیے سے قبل آئیے اخلاقی اقدار سے متعلق عمومی نقطہ نظر پر غور کرتے ہیں۔

اخلاقی نظریات کے ایک خاندان میں یہ بات مشترک ہے کہ وہ لوگوں کو گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ بعض گروہوں کے مفادات دوسرے گروہوں کے مفادات سے زیادہ اہم ہیں۔ نسل پرستی اس کی واضح مثال ہے۔ نسل پرست افراد، لوگوں کو انکی نسل کے مطابق گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں اور ایک نسل کی فلاح و بہبود کو دوسری نسل کی فلاح و بہبود کی نسبت زیادہ اہمیت تفویض کرتے ہیں۔ درحقیقت ہر طرح کے امتیازی سلوک جیسے یہود مخالفت (Anti-Semitism)، قوم پرستی، جنس پرستی، عمر پرستی، وغیرہ اسی قبیل سے ہیں۔ اس طرح کے تصورات کے زیرِ اثر لوگ ایسا سمجھیں گے کہ ” میری نسل زیادہ اہم ہے یا وہ لوگ زیادہ اہم ہیں جو میرے مذہب پر یقین رکھتے ہیں یا میرا ملک زیادہ اہم ہے وغیرہ۔

کیا ایسے خیالات کا دفاع کیا جاسکتا ہے؟ جو لوگ ایسا مانتے ہیں، وہ عموماً اسکی دلیل نہیں دیتے؛ مثال کے طور پر، نسل پرست افراد، شاذ و نادر ہی نسل پرستی کا جواز پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن فرض کریں کہ اگر وہ کوئی جواز دیں، تو ان کا کیا موقف ہوگا؟ ایسے ہر جواز کی راہ میں ایک عام اصول حائل ہے۔ آئیے ہم اسے “یکساں سلوک کا اصول” کہہ لیتے ہیں؛ ہمیں لوگوں کے ساتھ یکساں سلوک کرنا چاہئیے تاوقتیکہ کہ ایسا نہ کرنے کی کوئی معقول وجہ نہ ہو۔

مثال کے طور پر، فرض کریں کہ ہم شعبۂ وکالت میں دو طلباء کے داخلے کے متعلق غور کر رہے ہیں۔ اگر دونوں طلباء نے کالج سے گریجویشن اعزاز کے ساتھ کی اور داخلہ ٹیسٹ میں بھی نمایاں رہے، اگر دونوں یکساں اہل ہیں، تو پھر یہ محض صوابدیدی ہوگا کہ ایک کو داخلہ دیا جائے اور دوسرے کو نہیں۔ البتہ، اگر ایک نے گریجویشن اعزاز کے ساتھ کی اور داخلہ ٹیسٹ میں اچھے نمبر لے جبکہ دوسرا کالج میں فل ہوگیا اور اس نے کبھی داخلہ ٹیسٹ نہیں دیا، تو اب پہلے طالب علم کو داخلہ دینا اور دوسرے کو انکار

کرنا قابل قبول صورت ہے۔

دراصل، یکساں سلوک کے اصول کا تقاضا ہے کہ دوسروں کے ساتھ ہمارے معاملات میں شفافیت ہو؛ ایک جیسے معاملات میں یکساں سلوک کیا جانا چاہئیے، اور صرف مختلف معاملات میں مختلف سلوک کیا جاسکتا ہے۔

• اس اصول کے دو مطالب فرض کرنا لازمی ہیں؛

۱) پہلا یہ کہ لوگوں کے ساتھ یکساں سلوک کرنے کا مطلب ہمیشہ یہ نہیں ہوتا کہ انکے لئے یکساں نتیجہ بھی یقینی بنایا جائے۔

۲) دوسرا نکتہ اصول کے دائرہ کار سے متعلق ہے، یا یہ کہ کن حالات میں اس اصول کا اطلاق ہوتا ہے۔