تحریر ۔ حفیظ حسن آبادی
ھمگام آرٹیکلز
صرف گفتار سے زخموں کا رفو چاہتے ہیں
یہ سیاست ہے تو پھر کیا کہیں نادانی کو
اب کہاں جاؤں کہ گھر میں بھی ہوں دشمن اپنا
اور باہر مرا دشمن ہے نگہبانی کو
جسطرح لفظوں میں بُو کی تشریح نہیں کی جاسکتی ہم صرف اچھی یا بری کہنے پر اکتفا کرتے ہیں ، آنکھوں کے زریعے رنگوں میں تفریق دیکھی اور دکھائی جاسکتی ہے تفصیل نہیں بتائی جاسکتی غم اور خوشی کے لئے بھی ہمارے پاس کم یا زیادہ کہنے سے زیادہ کچھ نہیں اسی طرح درد، یاد سمیت تمام احساسات صرف محسوس کئے جاسکتے ہیں اُنکا رنگ و روپ، وزن، کوتائی و درازی، کمی بیشی کا کوئی حد و پیمانہ مقرر نہیں ٹھیک ایسے ہی ہم بلوچ کے اجتماعی درد کے بیان سے حاجز ہیں اُسے محسوس کرنے کی استدعا کرتے ہیں کیونکہ اُس کی گہرائی و شدت کی تشریح کیلئے ابھی تک دنیا کے کسی بھی زبان میں الفاظ بنے ہی نہیں ہیں.
ایک زندہ وجود میں ہزاروں بار ایک آدمی کیسے مرتا اور کیسے زندہ ہوتا ہے اس اذیت کو بیان کرنے الفاظ نہیں ملتے جو محسوسات کی ترجمانی کرسکیں .
اس المیے اور ناگفتہ بے دکھ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ اس درد سے لاتعلق ہو کر بھی اسے بیچنے پاکستانی پارلیمنٹ میں لائن لگائے بیٹھے ہیں.
ویسے تو یہ بے حسی موقع پرستوں میں اُس وقت سے جاری و ساری ہے جب پرویز مشرف نے دوہزار پانچ کو بلوچستان میں پانچویں فوجی آپریشن کا آغاز کیا جس کے نتیجے میں 2007 کو بزرگ رہنما نواب اکبر خان بگٹی شہید کئے گئے تو کچھ لوگوں نے غائبانہ نماز جنازہ پڑھ کر اُس کا سیاسی وارث بننے اور اسے ووٹ کی صورت کیش کرنے کی کوشش کی تو کسی نے شعوری یا لاشعوری طور پر قومی جذبات کو ٹھنڈا کرنے نمائشی بلوچی جرگہ بلایا.
لوگوں کا زمین سے وابستگی دیکھ کر ریاست نے گھبرا کر بلوچوں کو جبراً لاپتہ کرنا شروع کیا بعد میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے دوہزاردس کو “قتل کرو پھینک دو” پالیسی متعارف کیا اس کے بعد مسخ شدہ لاشوں کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہوا جو تاحال جاری و ساری ہے. جعلی مقابلوں میں بلوچ و پشتونوں کو مارنے کا سلسلہ بھی نیا نہیں ہے مگر اب اس میں تیزی آئی ہے جس پر بلوچ و پشتون پارلیمانی نمائدے اسمبلیوں میں تقریریں تو ضرور کرتے ہیں مگر اس کے حل پر وہ زور نہیں دیتے جس کا یہ گھمبیر مسلہ تقاضا کرتی ہے. بعض اوقات اُنکے رویے سے ایسے لگتا ہے کہ وہ یہ مسئلہ حل کرنے کیلئے نہیں اُٹھاتے بلکہ اس کے نتیجے میں عوامی غصے کو کم کرنے اور کسی بھی اُبھار کو ایک درست سمت چل پڑنے سے روکنے کیلئے کرتے ہیں. اس کی زندہ مثال پچھلے دنوں تربت میں دیکھنے کو ملی اور ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ یہ لوگ ان معصوموں کے وارث و غمخوار نہیں بلکہ انکی لاشوں اور انکے لواحقین کے آنسوؤں، سسکیوں کو بیچنے ہمہ وقت بیتاب و منتظر ہیں.
جب بلوچ نوجوان بالاچ مولا بخش کو کاونٹر ٹیررازم فورسز نے اپنے تحویل میں ہوتے ہوئے جعلی مقابلے میں دیگر تین جبری لاپتہ نوجوانوں کیساتھ شہید کر کے پھینک دیا تو اس بربریت پر اس کی فیملی نے انصاف کیلئے فریاد کیا اور بلوچ قوم نے تربت کی نمائندگی میں فیملی کا بھرپور ساتھ دیا جو ایک فیملی کے فریاد سے بدل کر قومی و اجتماعی احتجاج و مزاحمت میں بدل گئی. مگر جو لوگ لاپتہ افراد کے ایسے جعلی مقابلوں میں مارے جانے اور مسخ شدہ لاشوں پر مگر مچھ کے آنسو بہاتے رہتے ہیں وہ دور دور تک نظر نہیں آئے.
اس بیگناہ نوجوان کی میت چھ دن تک تربت کے چوراہے پر رکھا رہا لیکن نیشنل پارٹی کا لیڈر ڈاکٹر مالک اُنکے لواحقین سے ہمدردی کرنے اُن کے ساتھ بیٹھنے وقت نکال نہیں سکے. حق تو یہی تھا کہ وہ پہلے دن سے آ کے اُنکے ساتھ جُڑ جاتے اس سے نہ صرف اس مسئلے کو توجہ ملتی بلکہ اس کی فیملی اور دوسرے کمزور لوگوں پر انتظامیہ اور دیگر طاقتور لوگ احتجاج ختم کرنے دباؤ ڈال کر پریشان کرنے سے کتراتے. جب ساتویں دن قوم نے تمام تر رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے اُسے کوہ مراد میں آسودہ خاک کیا تب اگلے دن اُنکی پارٹی کے کچھ لوگ دھرنا دینے والوں کے ہاں نمودار ہوئے جس پر بلوچی میں محاورہ ہے “جنگ سرد بیت گلام گرم گیرت” (جب جنگ ختم ہوتا ہے تب غلام کا خون جوش میں آتا ہے “. شاید یہ حاضری لگا کر وہ یہی سمجھیں کہ پارٹی نے ہمبستگی کا اظہار کر کے اپنا حق ادا کیا جب کہ حقیقت بالکل بھی ایسا نہیں ہے کیونکہ لوگ دیکھ چکے ہیں جہاں ضرورت ہو تو پارٹی لیڈر خود لاشوں کو کندھا دیتے ہیں، وہاں گرتا اُٹھتا رسہ کشی بھی کرتے ہیں مگر جہاں انھیں ضرورت محسوس نہیں ہوتی وہاں ساتھ بیٹھنے کیلئے دو منٹ بھی نہیں نکال سکتے .
جب دھرنا احتجاج لانگ مارچ میں بدل گیا تو تربت کے عام لوگوں کی طرح مکران میں جہاں سے لانگ مارچ کا گزر ہوا لوگوں نے زبردست پزیرائی کی پنجگور نے فقیدالمثال یکجہتی کا اظہار کیا مگر وہاں بھی نہ عوامی کے اسد بلوچ گرجے نہ نشنل پارٹی کے رحمت بلوچ برسے اور نہ بی این پی مینگل کے نزیر بلوچ و واجہ جہانزیب کسی کونے میں نظر آئے.
آگے ناگ، گریشہ اور نال میں عام بلوچوں کا لانگ مارچ کے شرکاء سے ہمدردی و بڑی تعداد میں مرد و خواتین کا نکلنا قابل دید تھا. لوگوں کے اس سمندر کو کہیں بھی انتظامیہ روکنے میں کامیاب نہیں ہوئی مگر سردار اختر مینگل، ثناء اللہ زہری اور شفیق مینگل کے شہر خضدار میں نہ صرف لانگ مارچ کو روکنے سڑک پر کنٹینرز کھڑی کرکے رکاوٹیں کھڑی کی گئی بلکہ شرکاء پر لاٹھی چارج کیا گیا انھیں ہر طرح سے ہراساں کیا گیا اس سے پتہ چل گیا کہ شفیق مینگل و ثناءاللہ زہری نے علاقے میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا مگر سردار اختر مینگل ان عورتوں، بچوں، بزرگوں کیلئے ڈھال بن کر انھیں ہراساں ہونے سے نہیں بچا سکا حالانکہ تین ھفتہ قبل اختر مینگل نے جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل و قتال کے خلاف دھرنا دینے اور لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا. اب تو دھرنا مکمل جم و جوش کے ساتھ آپ کے دہلیز پر آ چکا تھا آپ کو اس میں صرف شامل ہونے کے توفیق کی ضرورت تھی مگر آپ ساتھ نہیں ہو لئے کیوں کہ آپ کو پتہ ہے کہ یہ درد کے مارے لوگ مسلے کے حل تک نہیں رُکنے والے اور اتنی دور چلنے کی نہ آپ کی خواہش ہے، نہ مجبوری نہ ضرورت اور نہ پالیسی. بلوچوں کے اس دکھ میں شریک ہونے کیلئے مظلوم پشتونوں کا لیڈر منظور پشتین وزیرستان سے تربت جانے کیلئے چمن سے روانہ ہوئے اُنکے قافلے پر فائرنگ کی گئی انھیں روک کر صوبہ بدر کر کے گرفتار کیا گیا تو اختر مینگل صاحب نے ٹیویٹ کیا کہ “منظور پشتین بلوچوں کو انصاف دلانے آیا اُسے یہ انصاف ملا” یہاں تک تو بات بالکل درست ہے کہ بلوچوں کو انصاف دلانے کے بجائے وہ خود بے انصافی کا شکار ہوئے مگر یہ جملہ لکھتے وقت آپ کے زہن میں ایک لمحے کیلئے بھی یہ سوال نہیں آیا کہ منظور پشتین ایک ہمسایہ ہو کر انسانیت کے ناطے اتنی دور تک آیا آپ تو بھائی ہیں آپ کو کس نے روکا آپ کیوں نہیں گئے ؟ اگر تربت تک جانا ممکن نہیں تھا تو اپنے گھر خضدار میں اُن کے ساتھ چند قدم چلتے. منظور پشتین ہمسایہ اور مظلومیت کے ناطے وزیرستان سے آپ کے بلوچوں سے ہمدردی کرنے تربت جانے کیلئے آیا آپ اس کی قوم پشتونوں سے اظہار یکجہتی کیلئے چمن تک کیوں نہیں گئے؟ جہاں وہ اپنے بنیادی انسانی حقوق کیلئے گزشتہ چالیس پچاس دنوں سے دھرنے پر بیٹھے ہیں نہ آپ گئے نہ آپ کے پشتون گورنر نے ہمسایہ داری، قومی و انسانیت کے ناطے وہاں جاکر قدم رنجاں فرمائے.
یہی فرق ہوتا ہے لیڈر اور سیاست دان میں لیڈر قوم کا اور دیگر مظلوموں کا غم محسوس کرکے اسے بانٹنے کی کوشش کرتا ہے جبکہ سیاست دان اُسی غم کا تماشہ بنا کر منڈی منڈی بیچنے کی سوچتا ہے.
اب آگے دیکھنا یہ ہے کہ اس بار آپ نے گمشدگاں و شہداء کے دکھی لواحقین کے ساتھ اپنے ہی گھر میں دو قدم چلنا گوارا نہیں کیا اس کے بعد آپ اسلام آباد یا کہیں اور کیسے انکی نمائندگی سے یا انکے درد کو محسوس کرنے بات کرو گے؟