تحریر : حفیظ حسن آبادی
(یہ مضمون پہلی بار جون 2014 کو روزنامہ توار میں شائع ہوا تھا کیونکہ اُس وقت بابا مری کے رحلت کے بعد اکثر مضامین و کمنٹس وغیرہ میں آپکی تاریخ پیدائش 28 فروری لکھا جانے لگا تو تاریخ کی درستگی کی غرض سے اس مضمون کی ضرورت محسوس کی گئی۔اس سال چونکہ لیپ سال ہے اور بابا کی درست تاریخ پیدائش ہوگی اس لئے یہ تحریر ایک بار پھر قارئین کی نذر کررہے ہیں)
سردار خیر بخش مری کے تاریخ پیدائش کے بارے میں اب تک جولکھا جارہاہے اُن میں آپکی پیدائش 28 فروری 1928لکھا جاتا ہے مگر میں نے آپ سے 29 فروری 1928سُنا ہے۔
اِسے میری خوش نصیبی کہیے کہ 1985/1986کومجھے ریڈیو کابل سے بلوچی میں پروگرام کرنے کاموقع ملا۔ اس دوراں نواب صاحب کے زیارت کا بھی کبھی کبھی موقع ملتا تھا لیکن افغانستان کے سرکاری میٹنگوں ملاقاتوں میں تو ھرحال میں ملاقات کا شرف ملتا بلوچوں کی طرف سے سردار مری صاحب ہماری قیادت کرتے تھے جب کہ میر ہزارخان مری،رازق بگٹی اور راقم ساتھ ہوتے۔ ان نشستوں میں تقریباً تمام افغان قیادت سے ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں جن میں بیشمار تلخ وشیریں باتیں ہوئی تھیں جنکا مرکزی کردار بلاشبہ سردار مری رہے ہیں۔
1986 کو انقلاب ثور کے سالگرہ کے موقع پر دنیا سے اسمیں شرکت کرنے وفود آئے تھے بلوچوں کی طرف سے سردارمری کی سربراہی میں ہم بھی موجود تھے جب کابل پولی ٹیکنک میں پروگرام ختم ہوا اور سب لوگ جانے کیلئے باہر نکلے تو پتہ چلا کہ نواب صاحب کی گاڑی زرا لیٹ ہے کیونکہ سینکڑوں گاڑیاں کھڑی تھیں اور تقریباً سب وی وی آپیز کی گاڑیاں تھیں لہذا ہر کوئی آرام سے انتظار کررہا تھا۔نواب صاحب دیگر لوگوں سے ہٹ کے ایک کنارے کھڑے ہوئے ہم بلوچوں کو الگ دیکھ کر اجمل خٹک بھی وہیں آئے اُنھیں بھی یہی مسلہ درپیش تھا اتنے میں ڈاکٹر نجیب اللہ جو اُس وقت افغان انٹیلی جنس خاد کے سربراہ تھے اپنی گاڑی سے نکل کر آئے اور آتے ہی مسکراتے ہوئے گویا ہوئے:
”نواب صاحب مجھے پتہ ہے آپ گاڑی کیلئے کھڑے ہیں! آپ کے گاڑی کو آنے میں وقت لگے گا لہذا آپ میرے ساتھ آئیں باقی دوست بعد میں آئیں گے“
”شکریہ ڈاکٹر صاحب میں اپنے دوستوں کو چھوڑ نہیں سکتا“
سردار مری نے کہا
”مری صاحب انکی گاڑی آئے گی وہ بھی آئیں گے میں آپکو یہاں کھڑا دیکھ کر آگے نہیں جاسکتا“
”بہت بہت شکریہ مگر میں انتظار کو بہتر سمجھتا ہوں“
سردار مری صاحب نے کہا جس سے نجیب اللہ کے چہرے پر ایک ناخوشگوار تاثر ابھرا جسے محسوس کرتے ہوئے اجمل خٹک نے معاملے کو سلجھانے کی کوشش کرتے ہوئے آپ سے کہا:
”کے۔ بی (آپ سردار مری کو اکثر اِسی نام سے یاد کرتے تھے) آپ جائیے ہم بعد میں آئیں گے اُس وقت تک سبز چائے بھی بنے گی ہم پیچھے آرہے ہیں“
پھر میر ہزار اور رازق نے بھی آپ سے درخواست کی مگر آپ اپنا فیصلہ تبدیل کرنے آمادہ نظر نہیں آئے اُس کی بنیادی وجہ آپ کی سخت ناراضی تھی کہ اِسی دن ببرک کارمل نے اپنی تقریر میں کہا تھا:
بلوچ اور پختون اُس وقت تک آزادی حاصل نہیں کرسکتے جب تک افغانستان آزاد و خوشحال نہیں ہوا جس پر آپ نے کھانے کے وقفے کے دؤراں ببرک کارمل سے تین دفعہ دوٹھوک سوال کیا جس کا آپ نے جواب نہیں دیا یا اُسکے پاس اسکا جواب نہیں تھا یا وہ نواب صاحب سے الجھنا نہیں چاہتے تھے۔
”بلوچ قوم کی ہزار سالہ تاریخ ہے اُسکی آزادی کو اپنے داخلی مسائل سے جوڑنا ہماری توہین ہے گویا ہم پہلے تمہیں خوشحال کریں آزاد و آباد کریں پھر اپنی سوچیں یہ دوستوں اور ہمسایوں جیسا اَپروچ نہیں ہے“
ڈاکٹر نجیب اللہ نے اجمل خٹک کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا:
”جاوید (رازق بگٹی کا کابل میں یہی نام تھا) کوئٹہ کے سبز چائے کی بڑی تعریفیں کرتا ہے چلو آج نواب صاحب کے ہاں اِسے پی کے دیکھیں گے“
”کوئٹہ کا سبز چائے دستیاب نہیں آج کل کوئٹہ سے ہمارے لوگوں کا آمد رفت بہت کم ہے“
آپ نے ڈاکٹر نجیب اللہ کی طرف دیکھے بغیر جواب دیا جو اُسکے خاطر پر مزید ناگوار گزرا تاہم مسکراتے ہوئے کہا:
”نواب صاحب یوں کہیے آج آپ ہمیں ساتھ لے جانا نہیں چاہتے۔لیکن مجھے اُمید ہے جب آپکی سالگرہ ہوگی تو ہمیں بلائیں ہم ضرور آئیں گے“
یہ سُن کر آپ مسکرائے یہ مسکراہٹ شاہد اُس ہیجانی دن کی پہلی مسکراہٹ تھی:
”ہم بلوچ سالگرہ نہیں مناتے اور ویسے بھی میری سالگرہ عام دنیا کی سالگراہوں سے الگ ہے وہ ہر سال نہیں بلکہ چار سال میں ایک بار آتی ہے میری درست تاریخ پیدائش 29 فروری ہے۔“
”ڈاکٹر نجیب اللہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور ناراض ہوتے ہوئے بولے:
”نواب صاحب میں آپ کے بغیر جاسکتا ہوں لیکن مجھے نہیں لگتاکہ آپ میرے بغیر کچھ کرسکیں گے“
اسکے بعد چار پانچ منٹ تک مکمل خاموشی چھاگئی اتنے میں نواب صاحب سمیت سب کی گاڑیاں آگئیں اور سب خاموشی سے چل دیئے
اب یہ حقیقت جاننا شاہد اتنا مشکل نہ ہو کہ واقعی آپکی تاریخ پیدائش 29 فروری ہے یا آپ اپنے دوستوں کو اکیلا چھوڑ کر جانے آمادہ نہیں تھے جو یہ عذر پیش کیا۔
راستے میں رازق بگٹی بہت پریشان دکھائی دیئے اور میں سمجھا کہ آپکی پریشانی اس بات سے ہے کہ سردار صاحب نے ببرک کارمل کے خاموشی کے باوجود ایک ہی سوال کو تین بار دئرایا جس سے ببرک کارمل اُٹھ کر دوسرے کمرے میں چلے گئے تھے۔
”مجھے کارمل کو ناراض کرنے کی کوئی پرواہ نہیں کیونکہ اُسے بہت جلد حکومت سے الگ کیا جائیگا اور اس ملک کا اگلا صدر ڈاکٹر نجیب اللہ ہے جسے کے۔بی نے ناراض کیا“۔
”اگر یہ بات آپ کو پتہ ہے تو کیا سردار صاحب کو اس کا علم نہیں کہ وہ افغانستان کے ممکنہ صدر کے ساتھ بات کررہے ہیں“
میں نے تجسس سے سوال کیا جس پر رازق نے رشک سے کہا:
”نواب صاحب کو مجھ سے کئی زیادہ پتہ ہے لیکن کے۔بی کے۔ بی ہے اِسے مفت میں تو لوگ مرد آئین نہیں کہتے یہی آپکی ادائیں ہیں جن پر لوگ فدا ہیں مجھے اُمید ہے ڈاکٹر صاحب خود اس بات کو درگزر کریں گے اور مری صاحب کو بھی منائیں گے“
(ختم شُد)