(گزشتہ سے پیوستہ)
لیڈر کا کردار زیادہ ترپالیسی سازی اور عسکری و سیاسی حکمت عملیوں کی ساخت و نفاذ میں ہوتا ہے، یہ ضروری ہے کہ لیڈر خود اس عمل سے گزرا ہو یا اس عمل کا حصہ رہا ہو اور عملی طور پر زمینی حقائق اور پیچیدگیوں کو بہ نظر غائر دیکھ چکا ہو اور ایک طویل دورانیے تک وہ خود اس کا کسی ناں کسی طور پر حصہ رہا ہو، ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی اٹھے اور آکر سر پر بیٹھ جائے کہ میں لیڈر ہوں اور ماتحت اسے قبول کرلیں، رہنمائی کی درجے کو پانے کے لئے لازمی ہے کہ نچلے درجے کی آپریشنل اور فیصلہ ساز لیڈرشپ اور ماتحتوں کا ایک اعتباری و قبولتی نفسیات اوپری سطح کے مرکزی لیڈرشپ پر بنے، وگرنہ پالیسی سازی و نفاذ میں بے حد مشکلات ابھرنا یقینی ہے۔ سیاست ہو یا پھرمقصد کی حصول کے لیئے سیاسی سہارے کے طور پر شروع کی گئی تشدد دونوں میں ایک مخلص، فیصلہ ساز اور اعصابی اعتبار سے مضبوط لیڈرشپ کا موجود ہونا نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے۔
اب تشدد کو لے لیکر انسان بہت زیادہ باؤک ہوجاتا ہے ۔ظاہرہے اس میں محنت کے پسینے کے ساتھ ساتھ لہو کا دھار بھی شامل ہوتا ہے، تشدد کے دوران آمنے سامنے آنے والے لوگوں میں سے بہت سوں کی موت ہوسکتی ہے ،بہت سوں کو زخم آسکتے ہیںاور ان میں سے کئی نہ مرتے نہ جیتے بلکہ اپاہج ہوکر ساری عمر درمیان میں معلق رہتے ہیں۔ سب قربانیاں قابل قدر ہیں لیکن لہو کی قربانی دینا شاید تمام قربانیوں سے اس لیئے قدرے بلند ہے کہ انسانی زندگی دوبارہ نہیں لائی جاسکتی، تشدد کا عمل اسی لئے عام لوگوں کے دلوں میں جلدی گھر کرجاتا ہے کہ اس میں شامل لوگ اپنی سروں کی پرواہ کئیے بغیر دشمن سے مدبھیڑ کرتے ہیں، وہ اپنی لہو سے اس سرزمین کی خراج کو ادا کرتے ہیں۔ تشدد کی جلد اثرپزیری اور لوگوں کی نفسیات پر یکا یک حاوی رہنے کا یہی وجہ ہے کہ تشدد میں ایک رمانوی عنصر بھی شامل ہے۔
میں بحیثیت ایک کالونائزڈ غلام نہ سیاست کا حصہ بنتا ہوں اور نہ تشدد سے کوئی سروکار رکھتا ہوں، اپنی زندگی اپنا گھر اور اہل و عیال لیکن کالونائزر کی بے لگام و بے ہنگم تشدد کی زد میں آکر ایک دن کسی قابض فوجی دستے کے ہاتھوں بیچ بازار اچھا کُٹ کھاتا ہوں، پھر کہیں چوک چوراہوں پر تذلیل برداشت کرتا ہوں اور رات کے کسی پہر ناکردہ اعمال کے عوض اپنی چادر و چار دیواری کی تقدس کو کھلے آنکھوں کے ساتھ پائمال ہوتے دیکھتا ہوں، کسی دن بازار کے سامنے موجود قابض فوج کی چوکی پھر ہونے والے حملے کے جواب میں فوج کی طرف سے داغے گئے راکٹ سے میرے گھر کا دیوار ڈھ جاتا ہے، بچے زخمی ہوجاتے ہیں ایک آدھ شہید یا اپاہج ہوجاتے ہیں، یا پھر شہید حیات بلوچ کی طرح ایک سانحے میں نہ چاہتے ہوئے بھی پھس جاتا ہوں اور تشدد کی غیر منظم سیلِ رواں کا شکار ہوکر قتل ہوجاتا ہوں، یہ سب چیزیں تشدد کی دین ہیں ،اس میں کسی کو غلط نہیں کہا جاسکتا ہے کہ اس نے جنگ ہی کیوں شروع کی، جنگی حالات میں تشدد جو کہ ایک لامحدود میدان ہے اور بے حساب لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، اس میں بہت سارے لوگ خواہمخواہ غیر ارادی طور پر تشدد کا شکار ہوجاتے ہیں، لہذا اب میں کُٹ کھایا ہوا ایک عام کالونائزڈ غلام ہوں، سڑکوں چوکوں چوراہوں پر تذلیل برداشت کرتا ایک بندہ ہوں گزشتہ رات اپنی ہی گھر میں قابض فوجی دستوں کی غلیظ گالیاں سننے والا ایک عام آدمی ہوں یا پھر میں حیات بلوچ کا بڑا بھائی، والد، ماں یا بہن ہوں۔
اب میں اپنے آپ کو یا آپ خود کو ان تمام رشتوں کی مقام پر رکھ کر سوچیں کہ یہی تشدد و تذلیل کا عمل قابض فوج کی طرف سے ہمارے ساتھ ابھی ایک آدھ دن پہلے روا رکھی گئی اور اسی وقت ہمیں خبر مل جائے کہ کہیں قابض کے ساتھ مدبھیڑ میں ریاست کے بہت سے عسکری کارندے مارے گئے ہیں، گاڑی نے آگ پکڑلی اور بہت سوں کی لاشیں جل گئیں، کہیں کچھ بندے کسی عسکری چھاؤنی میں گھس کر پچھلے دس گھنٹوں سے جان ہتھیلی پر رکھ کر لڑ رہے ہیں، یا ہم بذات خود اپنی کانوں سے دھماکوں کی گونج اور بندوقوں کی گڑگڑاہٹ کو اپنی چادیواری کے اس پار موجود قابض کے مورچے پر سنیں تو ہمارے اندر خود بخود ایک احساس ابھرنے لگتا ہے ہمیں یہی لگنے لگتا ہے حساب برابر ہوگیا، بدلہ لے لیا گیا، بہت اچھا ہوا اور انکے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہئے، ہمیں اس بات کا کوئی پتہ بھی نہیں کس نے مارا، مارنے والے کی سیاسی نظریہ کیا ہے اور اس میں کتنی گہرائی و گیرائی موجود ہے یا پھر یوں کہیں کہ مارنے والا کون ہے، ان سے اس تحریکی عمل کے دوران کون کونسی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں وہ اپنی بندوق کی طاقت کے بل پر کتنے بے گناہ لوگوں پر ظلم و زیادتی کرچکا ہے، یا تشدد کے قوت کے سہارے اس نے کس حد تک اور کہاں کہاں اپنے حلف اور اختیارات سے تجاوز کیا ہے، بحیثیت عمومی ہمیں ان تمام چیزوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، ہم قابض کے تشدد کے شکارلوگ جوابی تشدد کے نتائج سے مغلوب ہوکر دل ہی دل میں ان تمام لوگوں کو اپنی نجات دہندہ سمجھتے ہیں اور سمجھنا بھی چاہئے لیکن دوسری طرف اس عمل یا اس عمل کو سرانجام دینے والے کی کردار ہمارے لیئے اہم نہیں ہوتا کیونکہ عمومی اعتبار سے وہ میرا مسئلہ نہیں ہے، میں تشدد کے بعد نتائج کی تصاویر دیکھتا ہوں، ویڈیوز دیکھتا ہوں ان کی شان میں کہے گئے شعر اور گائے ہوئے گانے سنتا ہوں، اور محاذ جنگ سے آئی ہوئی ویڈیوز میں بندوقوں کی گھن گرج اور دھماکوں کی آوازیں سنتا ہوں ،انہیں آگے مشتہر کرتا ہوں، اور فوجی چھاؤنی میں گھس کر فوج کو ناکوں چنے چبوانے والے اپنے بہادرسپوتوں کی تصویریں اپنی سوشل میڈیا اکاؤنٹس میں آویزاں کردیتا ہوں، یہ انکے حوالے سے عمومی طور کسی کا پیار ہے، کسی کی وابستگی ہے اور اسی احساس کی نمائندگی ہے کہ ہمارے ساتھ چوک چوراہوں پر ہونے جبر و زیادتیوں اور قومی غلامی جیسے چیرہ دستیوں کا کوئی ہے جو حساب یا بدلہ لے رہا ہے، عمومی سوچ کا پیمانہ یہی سوچتاہے کہ وہ یقینا ًقوم کا ہیرو ہی ہوگا، اس سے آگے سوچنا یا چیزوں کی گہرائی تک اترنا یا تو اسکے بس میں نہیں یا پھر ترجیحات میں نہیں۔
یہ سوچنا یا کہنا کہ تشدد کرنے والے لوگ اپنی پس و پیش سے خود اچھے سے واقف ہیں کہ کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے ہم کیوں کہیں دور بیٹھ کر ان مسائل پر مغز ماری کرتے پھریں جب کہ ہماری بات وہ سنتے ہیں ور نہ ہی مانتے ہیں، پہلے ہی اس پر بات کرچکے ہیں کہ ڈی کالونائزیشن کے عمل میں تشدد کی موجودگی ہی کافی نہیں ہوتی بلکہ تشدد کی انتظام و انصرام خود تشدد سے سوا اہمیت رکھتا ہے۔ عمومی اعتبار سے عام لوگوں کے نفسیات میں تشدد کی موجودگی ہی کافی ہے وہ اسی سے خود کو رومانیوں حد تک جوڈ لیتے ہیں اور جو لوگ تشدد کے عمل سے باہر بیٹھ کر تشدد کی پیچیدگیوں پر غور کرکے اپنی رائے رکھتے ہیں تو غیر سیاسی اور تشدد کی رومانویت کے شکار نفسیات کے لوگ اسی طرح کی باتیں کرنے لگتے ہیں وگرنہ تشدد کی حدود و قیود اور اسکی اساس کو مقصدیت سے جوڈے رکھنے کے لیئے لیڈرشپ اور دانشور کا کردار اہم نہیں بلکہ بنیادی ہوتا ہے اسکی بنیادی وجوہات یہی ہیں کہ لیڈرشپ ایک مضبوط نفسیات کے ساتھ تشدد سے ابھرنے والے ہر ہر واقعے کی بڑی باریکی سے تجزیہ کرتا ہے اور اپنا فیصلہ دیتا ہے اور انکے فیصلوں میں تشدد کے عمل میں براہ راست شامل لوگوں کی طرح کوئی جذباتی نفسیات کی بوجھ نہیں ہوتی اسی لیئے وہ بیشتر اوقات اپنے فیصلوں کو تشدد کی مقصدیت کے ساتھ جوڈ کر دیکھتا ہے، اور دانشور طبقہ لیڈر کی طرف سے تشدد کے عمل کی فیصلہ سازی اور حکمت عملیوں کے ساخت و پرداخت میں در آنے والے ممکنہ کوتاہیوں کی نشاندہی کرتا ہے، کیونکہ رہنما گرچہ کھلے دل و دماغ اور تشدد کے اثرات سے پرے رہتے ہوئے سوچتا اور فیصلہ کرتا ہے لیکن ان میں پھر بھی انسانی ذہنی استعداد و وسعت کی اعتبار سے غلطیوں کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے اور اسی خلاء کو پر کرنے لیئے دانشور جہد کے عمل میں رہنمائی کرنے والوں کی فیصلہ سازی اور ان سے نکلنے والے نتائج کو تجزیہ کرکے اپنی رائے دیتا ہے۔
لیکن تشدد کی غیر منظمیت کی وجہ سے ایک تو تشدد میں شامل لوگ عمومی اعتبار سے تشدد کی رومانوی پہلو کی عام عوامی قبولیت کو کامیابی کی آخری سیڑھی اور خود کے لیئے ایک ایجاب و قبولیت سمجھتے ہوئے لیڈرشپ یا رہنما کی سرپرستی اور عمل کو اجتماعی حوالے سے بہتر بنانے کی دباؤ کو اپنے سر سے اتار کر خود ہی سب انتظامی بندوبست کو سنبھالنے میں عافیت سمجھتے ہیں اور دوسری طرف وہ دانشور کی تجزیاتی تنقید کو بھی لتاڑتے ہوئے اسے ایک سازش، خوامخواہ کی کج روی یا ذہنی توانائی کا زیاں کہتے ہیں اور دونوں یعنی لیڈرشپ کی سرپرستی اور دانشور کی رائے کو متنازع بناکر اور اضافی شئے کہہ کر رد کرتے ہیں اور تشدد کی انتظامی امور کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے فیصلہ سازی کرنے لگتے ہیں جسکے نتائج میں تشدد کا اجتماعی عمل جذباتی نفسیات کے کثافت سےبھر جاتا ہے اور آہستہ آہستہ تشدد اپنی مرکزیتی اساس و لیڈرشپ کی مرکزی اختیار سے نکل کر بے ہنگم شور میں ڈھل جاتا ہے، لیکن دوسری طرف تشدد میں شامل نچلے پرتوں کے لوگ عمومی عوامی ریووں میں رومانوی کیفیات کی بھر مار کو اپنی عمل سے پیدا ہونے والی نتائج کے اسناد کے طور پر دیکھتے ہیں جو کہ خود جد و جہد کی بنیادی نظری و فکری اساس کے لیئے حد درجہ خطرناک ہے۔ شاعر اپنی شعری تاثرات میں انکو یاد کرتے ہیں، گائیک اسی شاعری کو مدُھر سازوں میں ڈھال کر عمومی عوامی نفسیات کے لیئے اور زیادہ اثر پذیر بناتے ہیں، جو کہ سننے میں تو اچھا لگتا ہے دل کو چھونے والی شاعری اور عمومی ذہنیت کی جذبات کو انگیخت کرنے والی موسیقی اور استعمال ہوتے الفاظ اس طرح دل کو موہ لیتے ہیں کہ نوے فیصدی لوگ عمل کی فیصلہ سازی اور حکمت عملی سمیت اس سے در آنے والی نتائج کی اچھے یا برے ہونے سے بے خبر اسی میں سر دھنتے اور رقصاں رہتے ہیں، لہو کی فوار اور قربانی کی بے غرض جذبہ کو خراج پیش کرتے رہتے ہیں۔ آج کی پاکستانی مقتدرہ اور عسکری قوتوں کی پالیسیوں سے نالاں بعض ناقد جو انیس سو اکہتر کی بنگلادیشی جنگ کے وقت نوخیز جوان رہے ہونگے وہ آج برملا اس چیز کو بغیر کسی لگی لپٹی کے بولتے ہیں کہ “جب مشرقی پاکستان کے شہرڈھاکہ کی گلیوں میں پاکستانی فوج سے بندوقیں لی جارہی تھیں انکو جان کے عوض سر تسلیم خم کروائی جارہی تھی تو ادھر مغربی پاکستان میں پی ٹی وی کے آگے بیٹھ کر ہم ملکہ ترنم نورجہاں کی مدھر آواز میں ڈھاکہ میں فوج کی لازوال کامیابیوں اور جنگ جیتنے کے حوالے سے گیت سن کر دل ہی دل میں خوش ہوتے رہتے تھے کہ پاکستانی جوان یہ معرکہ جیت کے سرخرو ہورہے ہیں لیکن نتائج کی قلعی کھلنے کے بعد معلوم ہوا کہ نہیں فوج کے جوان تو جان کے عوض ہتھیار ڈال کر انڈیا کے جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں”۔
وہ تو پھر بھی انیس سو اکہتر تھا جہاں نہ کوئی خاص ابلاغی ذرائع تھا اور نہ ہی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا جیسی کوئی شئے موجود تھی پھر اندازہ لگا لیجئے کہ آج کوئی عمل کس طرح جلدی عوامی پذیرائی حاصل کرسکتی ہے اور کتنی جلدی وہ عمل عوامی قبولیت کا درجہ پاسکتی ہے اور پھر وہ عمل بھی از خود عمومی جذبات کو ابھارنے والا تشدد کا عمل ہو اور اس عمل کے نتیجے میں بہتی لہو کی فوار خشک ہونے سے پہلے پہلے اس عمل کی جھلکیاں عام عوام کے ہاتھ میں تھامے اسمارٹ فونزمیں بندوقوں کی گڑگڑاہٹ کی صوتی پس منظر کے ساتھ چل رہی ہوں تو سوچو ایسے میں تشدد کی اس غیر منظم ڈھانچے کی عوامی پزیرائی کے سامنے لیڈرشپ یا رہنما کے لیئے جد و جد کو اسکی اساس و مقصدیت سے جوڑے رکھنے کے لیئے تعقل پسند، حقیقت پسند اور منطقی بن جانا یا معروضی بنیادوں پر فیصلہ صادر کرنا کس انتہا کی حد تک مشکل ہوتا ہوگا۔
عمومی عوامی قبولیت کی اہمیت اپنی جگہ لیکن ڈی کالونائزیشن کے جد و جہد میں لیڈزشپ کی طرف سے لی گئی سخت اور تلخ فیصلے ہی اہمیت رکھتے ہیں، وہ بہت سارے لوگوں پرہوسکتا ہے کہ گراں گزرتے ہوں لیکن اجتماعی مقصدیت کو اپنی اساس سے جوڑے رکھنے لیے یہی سخت و تلخ فیصلے ہی کام آتے ہیں وگرنہ عمومی عوامی قبولیت کو سراہنا اور اس پر اترانا سیاسی حوالے سے شاید کسی گروہ کو فائدہ دے سکے لیکن اجتماعی عمل کے لیے عمومی ذہنیت کی قبولیت کوئی خاص معنی نہیں رکھتا اسی لیئے ایسے عمومی رائے کو بطور کامیابی کے سند کے پیش نہیں کیا جاسکتا۔