نوٹ: مارک کنرا کی یہ رپورٹ بلوچستان میں موجود آزادی پسندوں کے درمیان حائل ان دشواریوں پر مبنی ہے جو بلوچ وسیع تر قومی مفادات کے راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

ان رکاوٹوں میں سب سے اہم ایک متحدہ فلیٹ فارم کی تشکیل ہے جس میں ابتک بلوچ آزادی پسند طبقے کامیاب ہوتے نظر نہیں آرہے، اس رپورٹ میں اس حوالے سے بہت سے نقاط کا احاطہ کیا گیا ہے جو بوجوہ قارئین کی نظر سے اوجھل تھے۔

یہ پہلی بار ہے کہ بلوچستان میں موجود نمائندہ پارٹی و تنظیموں نے اتحاد کے حوالے سے کسی حد تک کھل کر اپنے موقف کا اظہار کیا ہے اور بلوچ آزادی پسند حلقوں و قارئین کے لئے یہ مضمون یقینا دلچسپی کا حامل ہوگا۔

(ہمگام ٹیم)

۔۔۔

تئیس مارچ کو پاکستان نے یوم پاکستان یا قرارداد لاہور 1940 منایا، جس میں متحدہ ہندوستان کے مسلم اکثریتی صوبوں سے ایک خودمختار آزاد ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا گیا لیکن مسلمانوں کے ایک حصے کی آزادی یا حقوق کا مطالبہ کرتے ہوئے بلوچستان کا زبردستی الحاق کر لیا گیا، اوربلوچستان کو نو آبادی بنایا گیا جو کبھی پاکستان کا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا۔

ستائیس مارچ 1948 کو اپنے قیام کے ایک سال سے بھی کم عرصے کے بعد، پاکستان اپنی مسلح افواج کو لے آیا اور بندوق کی نوک پر خان آف قلات میر احمد یار خان سے الحاق کے دستاویز پر دستخط کروا دیا۔ دیگر شاہی ریاستوں کے برعکس، 4 اگست 1947 کو، برطانوی، پاکستان اور قلات کے حکام کے درمیان یہ فیصلہ ہوا کہ ریاست قلات خود مختار ہو گی اور وہی حیثیت حاصل کرے گی جو 1838 میں حاصل تھی (برطانیہ کی جاگیر ریاست بننے سے پہلے)۔ مزید یہ کہ ریاست قلات اور پاکستان کے درمیان 11 اگست 1947 کو ایک سٹینڈ اسٹل کا معاہدہ طے پایا۔ تاہم نہ انگریز اور نہ ہی پاکستان ایک خودمختار بلوچستان چاہتے تھے کیونکہ یہ ان کے مفادات کے خلاف تھا۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان کو، جس نے اکثریتی آبادی اور شناخت کی بنیاد پر ایک علیحدہ قوم کا مطالبہ کیا تھا، ایک آزاد ملک کی جمہوریت کو قتل کرنے میں کوئی وقت نہیں لگا۔ قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی نے 1947 کے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور بلوچستان کی 52 میں سے 39 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ کے این ایس پی عام بلوچوں کی نمائندگی کرنے والی پہلی سیاسی جماعت بن گئی۔ بلوچستان کا ایک، دو ایوانی قانون ساز ادارہ تھا۔ دارالعمراء (ہندوستان میں راجیہ سبھا کی طرح) اور دار العوام (ہندوستان میں لوک سبھا کی طرح) پر مشتمل دونوں نے متفقہ طور پر ایسے کسی بھی انضمام کی مخالفت کی۔ بلوچستان کے دارالعوام کے ایک منتخب رہنما میرغوث بخش بزنجو نے واضح طور پر کہا: “ہماری ایک الگ تہذیب ہے، ہم مسلمان ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ مسلمان ہو کر ہم اپنی آزادی کھو دیں اور دوسروں میں ضم ہوجائیں۔ اگر محض یہ حقیقت ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارے لیئے پاکستان میں شامل ہونا ضروری ہے تو پھرافغانستان اور ایران کو بھی پاکستان کے ساتھ الحاق کر لینا چاہیے۔ ہم خودمختار برابری کی بنیاد پر اس ملک کے ساتھ دوستی کرنے کو تیار ہیں لیکن پاکستان کے ساتھ الحاق کے لیے کسی صورت تیار نہیں”۔

مجھے ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد اور بلوچستان میں آج کل جو کچھ ہو رہا ہے اس میں کافی مماثلتیں نظر آتی ہیں۔ ہندوستان کی طرح، جہاں ہمارے پاس گرم دل اور نرم دل تھی، کئی بلوچ قوم پرست گروہ ان خصوصیات میں شریک ہیں۔ 3 ممتاز بلوچ گروپ ( بی آر پی)، (بی این ایم) اور(ایف بی ایم) بلوچستان کی آزادی کے لیے کام کر رہے ہیں۔

 فری بلوچستان مومنٹ اور بلوچستان ریپبلکن پارٹی کی قیادت پاکستانی ظلم و ستم اور ان کے خلاف جاری فوجی کارروائیوں کے خلاف حفظِ ماتقدم کے بنا پر بلوچستان سے باہر یورپ میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ بی این ایم کوبھی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے جبر کاسامنا ہے۔ کچھ رہنما بلوچستان سے باہر یورپ میں کام کرتے ہیں جبکہ باقی بلوچستان بھر میں زیر زمین ہیں۔

مشترکہ مقصد کے لیے کوشاں ہونے کے باوجود ان گروہوں کا نظریہ اور تذویراتی سوچ و بچار کا عمل ایک دوسرے سے کافی مختلف ہے جس کی وجہ سے انکے لیئے ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔ افغانستان کی حکومت طالبان کے ہاتھوں میں آنے کے بعد، فری بلوچستان مومنٹ افغانستان میں بلوچ مہاجرین (جو پاکستان سے بچ کر افغانستان چلے گئے) کی حفاظت کے لیے بلوچ تنظیموں کو اکٹھا کرنے کے لیے سرگرم ہوا۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ یہ گروپس آپس میں ایک ساتھ متحد ہونے کی جد و جہد کررہے ہیں، 07-2008 میں بلوچ نیشنل فرنٹ کو اسی مقصد کے ساتھ بنایا گیا تھا یہ ایک امبریلا گروپ تھا جس میں بی ایس او آزاد، بی آر پی، بلوچ نیشنل مومنٹ وغیرہ اس متحدہ فلیٹ فارم کی تنظیمیں تھیں۔ تاہم یہ ناکام ثابت ہوا۔ کیونکہ کچھ رکن تنظیموں کے پاکستانی پارلیمانی سیاسی گروپوں کے ساتھ تعلقات تھے اور دیگر اتحاد کے انتظامی طریقہ کار پر اختلاف رکھتے تھے۔

دوہزار تئیس کے دوران، بی این ایم بلوچ گروپوں کو قوم پرستانہ مقاصد کے حصول کی خاطر اکٹھا ہونے کے لیے مشترکہ نکات پر مشتمل ایجنڈا لے کرسامنے آیا۔ فری بلوچستان مومنٹ کے ذرائع کے مطابق، متعدد دور کی بات چیت کے بعد، دونوں پارٹیوں کے درمیان بعض نکات پر پیش رفت بھی ہوئی ہے۔ نمبر ایک۔ آزادی کے لیے لڑنا اور آزادی کی جدوجہد کی حمایت کرنا؛

نمبر دو۔ دونوں جماعتیں بلوچ تاریخ میں قومی اہمیت کے ایام کو تسلیم کرتی ہیں اور انہیں مل کر یاد کرتی ہیں۔

نمبر تین۔ پاکستانی پارلیمانی سیاست میں حصہ نہ لینا؛ نمبر چار۔ سیاسی سرگرمیوں اور تقریبات میں علیحدگی، ایک دوسرے کے معاملات میں عدم مداخلت، سیاسی نظریات جوں کے توں برقرار رہیں گے۔ بعض نکات نے مذاکراتی عمل میں تاخیر پیدا کی ہے۔

نمبر ایک۔ ان تنظیموں سے تعاون یا تعاون نہ کرنا جن کے مقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے ساتھ سیاسی تعلقات ہیں۔ نمبر دو۔ پارٹیوں کو خود مختار ہونا چاہیے اور ان کے پاس کسی تیسرے فریق کی تنظیم، قومی ریاست یا کسی بلوچ مسلح گروہ سے بغیر کسی نتیجے کے اپنے فیصلے کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔

نمبر تین۔ منقسم بلوچستان کے کسی بھی حصے میں بلوچ قوم پر ہونے والے ظلم میں براہ راست ملوث ممالک کی حمایت حاصل کرنا۔ آخری دو نکات ایف بی ایم اور بی این ایم کے درمیان سب سے بڑے تنازعات ہیں، کیونکہ پاکستان کے علاوہ ایف بی ایم ایران کو بھی مکمل آزادی کے حصول کے اپنے مقاصد کے خلاف سمجھتا ہے کیونکہ وہ ہرمزگان، کرمان اور جنوبی خراسان میں شامل کیئے جانے والے بلوچ علاقوں سمیت سیستان بلوچستان اور دیگر بلوچ تاریخی علاقوں کو متحدہ بلوچستان کا حصہ سمجھتے ہوئے انہیں مغربی مقبوضہ بلوچستان کہتا ہے۔ جبکہ بی این ایم اپنی توجہ کو منتشر کیئے بغیر محض پاکستان پر اپنی توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہے۔

بی آر پی نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور اب تک کوئی تجویز سامنے نہیں آئی ہے۔ یہ بات اجاگر کرنا ضروری ہے کہ براہمداغ بگٹی بلوچستان کی آزادی کے لیے آواز اٹھانے والوں میں سے ایک رہے ہیں لیکن پاکستان نے انہیں قانونی طور پر دہشت گردی کے الزامات میں الجھا دیا ہے۔ بی آر پی کے متعلق بی این ایم کا موقف ہے کہ “ہمارا تعاون سوشل میڈیا پر تقریبات میں شرکت اور باہمی تعاون تک پھیلا ہوا ہے۔ اگر ہمارے اہداف ایک دوسرے سے ملتے ہیں، تو ہماری راہیں آخرکار آپس میں مل جائیں گی۔ ہمیں اپنی بات چیت میں کھلے پن اور افہام و تفہیم کو برقرار رکھنا چاہیے۔ ان کے مشترکہ نکاتی ایجنڈے پر مجموعی ردعمل کے بارے میں پوچھنے پربی این ایم نے جواب دیا کہ، “ہمارے مسودے کی تجویز کو مثبت رائے ملی ہے۔ ہم سیاسی اتحاد قائم کرنے سے پہلے جامع اتحاد کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ اتحاد سے پہلے روابط قائم کرنے میں ہچکچاہٹ آگے بڑھنے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ اس لیے سیاسی کارکنوں کو آپس میں ہم آہنگی کو فروغ دینا چاہیے۔

ایسا لگتا ہے کہ بلوچ قوم پرست محاذ پر ہونے والی تمام پیش رفت نے پراسرار تنازعات کے ساتھ مثبت نتائج حاصل کیے ہیں جن سے مجھے امید ہے کہ وہ ان سے نمٹیں گے اور کوئی حل نکالیں گے۔ تنوع میں اتحاد آج کے دور میں اہم ہے اور نظریات کا تنوع ایک ایسے جمہوری مستقبل کا باعث بنے گا جس کی بلوچ قوم کی خواہش ہے۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ بلوچ گروپس ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوں اور استعمار کے خلاف اپنے متحد موقف اور ان کے نہ ختم ہونے والے جذبے کو دنیا کو دکھائیں کہ وہ گزشتہ 76 سالوں سے ایک منصفانہ اور حقیقی مقصد کے لیے کس طرح لڑ رہے ہیں۔