لندن (ہمگام نیوز ) حماس کے ایک اعلیٰ سیاسی عہدیدار نے خبر رساں ادارے ‘اے پی’ کو بتایا ہے کہ فلسطینی مزاحمتی گروپ پانچ سال یا اس سے زائد عرصے کے لیے جنگ بندی پر تیار ہو کر ہتھیار بھی چھوڑ سکتا ہے۔ بشرطیکہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام 1967 کی فلسطینی حدود کی بنیاد پر منظور کر لیا جائے۔
یہ ریمارکس خلیل الحیہ نے بدھ کے روز ایک انٹرویو میں ایسے وقت میں دیے ہیں جب اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے مذاکرات کئی ماہ سے بے نتیجہ ثابت ہو رہے ہیں۔
مبصرین کے مطابق فلسطینی مزاحمتی گروپ کی طرف سے یہ پیشکش ایک غیر معمولی پیش رفت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ کیونکہ حماس نے کبھی اسرائیلی ریاست کو قبول کرنے کا عندیہ نہیں دیا بلکہ اس کے خاتمے کا ہدف رکھتی ہے۔
تاہم اس کے باوجود اسرائیل کی طرف سے اس اہم تجویز پر غور کا امکان نہیں ہے۔ کہ اسرائیل سات اکتوبر کے بعد سے مسلسل زور دے کر کہہ رہا ہے کہ وہ حماس کے خاتمے تک جنگ نہیں روکے گا۔ نیز اسرائیل آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی بھی مخالفت کرتا ہے۔ خلیل الحیہ حماس کے اعلیٰ عہدیداروں میں سے ایک ہیں۔ وہ حماس کی طرف سے جنگ بندی کے لیے کیے جانے والے حالیہ مذاکرات کا حصہ رہے ہیں۔ وہ استنبول میں ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کر رہے تھے۔
خلیل الحیہ نے کہا ‘حماس ‘پی ایل او’ میں شمولیت چاہتی ہے۔ تاکہ غزہ اور مغربی کنارے پر مشتمل ایک مشترکہ فلسطینی حکومت قائم ہو سکے۔ جو ایک خود مختار فلسطینی ریاست کے امور کو دیکھتی ہو اور جو فلسطینیوں کو ان کا حق واپسی دینے پر یقین رکھتی ہو تاکہ فلسطینی پناہ گزین واپس اپنے گھروں کو فلسطین میں آسکے۔ جیسا کہ بین الاقوامی سطح پر منظور کی گئی قراردادوں میں فلسطینیوں کے حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست 1967 کی فلسطینی حدود کی بنیاد پر ہی قائم ہو سکتی ہے۔ ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم ہونے کی صورت میں حماس کا عسکری ونگ ختم کیا جا سکتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ تمام تجربہ کار لوگ جنہوں نے اسرائیلی قبضے کے خلاف لڑا ہے۔ جب ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم ہو جائے گی اور فلسطینیوں کو ان کے مکمل حقوق مل جائیں گے تو وہ سب لوگ سیاسی جماعتوں میں شامل ہو جائیں گے اور ایک دفاعی فوج کا قیام فلسطینی ریاست کرے گی۔
واضح رہے حماس کی طرف سے بعض اوقات اسرائیل کو ایک ریاست کے طور پر آزاد فلسطینی ریاست کے ساتھ ساتھ قبول کر لینے کا عندیہ دیا جاتا ہے۔ تاہم حماس کا باضابطہ مؤقف آج بھی اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا ہے۔
دریا سے سمندر تک کے فلسطینی مؤقف کے حوالے سے ایک سوال پر خلیل الحیہ نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا کہ آیا وہ دو ریاستی حل قبول کر کے اسرائیل کو تباہ کرنے کے اپنے مؤقف کی طرف ایک عبوری قدم ہوگا یا وہ اسرائیل کے ساتھ تنازعہ کے خاتمے کے مترادف ہوگا۔ حماس کی طرف سے اس اہم پیشکش کے بعد اسرائیل یا فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
حماس کے دوحہ میں مرکزی سیاسی دفتر کی کسی اور ملک میں منتقلی کے بارے میں ایک سوال پر حماس کے سیاسی رہنما نے ان خبروں کی تردید کی اور کہا ‘حماس کی خواہش ہے کہ قطر ثالث کے طور پر اپنی حیثیت کو جاری رکھے۔
انہوں نے امریکی اور اسرائیلی حکام کے اس الزام کی بھی تردید کی کہ حماس جنگ بندی کے لیے سنجیدہ نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حماس نے فلسطینی قیدیوں کی تعداد کے حوالے سے جو رعایت دی تھی وہ اسی لیے تھی کہ حماس باقی یرغمالیوں کو بھی رہا کرنا چاہتی ہے۔ تاہم انہوں نے اس بارے میں لاعلمی ظاہر کی کہ حتمی طور پر انہیں معلوم نہیں ہے کہ اس وقت کتنے اسرائیلی یرغمالی زندہ ہیں اور کتنے قید کے دوران مر گئے ہیں۔
خلیل الحیہ نے واضح کیا کہ حماس غزہ میں مستقل جنگ بندی اور غزہ سے اسرائیلی فوج کے مکمل انخلاء کے اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ ان کا کہنا تھا ‘ہمیں یقین نہیں ہے کہ جنگ ختم ہو جائے گی تو ہم اسرائیلی قیدیوں کو اسرائیل کے حوالے کیوں کریں۔’
الحیہ نے ایک سوال کے جواب میں دوٹوک انداز اختیار کرتے ہوئے کہا کہ حماس اسرائیلی یا اس دوسری کسی بھی فوج پر حملہ کر سکتی ہے جو ایک تیرتی ہوئی عارضی بندرگاہ کے اردگرد تعینات ہو سکتی ہے۔ واضح رہے یہ تیرتی ہوئی عارضی بندرگاہ امریکہ تعمیر کر رہا ہے۔
خلیل الحیہ نے 7 اکتوبر کو حماس کی طرف سے اسرائیل پر کیے گئے حملے پر کوئی افسوس ظاہر نہیں کیا۔ تاہم انہوں نے اس الزام کی تردید کی کہ حماس کے لوگوں نے حملے کے دوران اسرائیلی شہریوں کو نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا ہمارے اس حملے کے نتیجے میں مسئلہ فلسطین پوری دنیا کے سامنے دوبارہ زندہ ہو گیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں فلسطینی رہنما نے کہا ‘وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے حماس کو تباہ کر دیا ہے۔ ان کی یہ غلط فہمی ہے۔ انہیں پتہ ہونا چاہیے کہ فلسطینی عوام آج بھی غزہ میں موجود ہے اور کیا فلسطینی کہیں چلے گئے ہیں؟’