شال (ہمگام نیوز) نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی بارکھان زون کے ترجمان نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ بارکھان کو رکنی سے لنک کرنے والی مین شاہراہ جس کی لمبائی 52 کلومیٹر ہے پچھلے کئی سالوں سے عدم تعمیر کا شکار ہے۔ ان چند سالوں میں تین حکومتوں کی تبدیلی کے بعد بھی مین شاہراہ کی خستہ حالی سے لوگوں کو آمد و رفت میں شدید دشواری کا سامنا ہے جبکہ مذکورہ شاہراہ پر تعمیراتی کام شدید سست روی کا شکار ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے محکمہ تعمیرات اور ٹھیکداروں کی ملی بھگت سے صرف 15 کلومیٹر تک کا تعمیراتی کام مکمل ہوا جس کی وجہ سے عوام ، تاجر برادری، کوہلو، بارکھان سے رکنی، ڈیرہ غازیخان، ملتان اور دوسرے شہروں کے مسافروں کو شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ ایمرجنسی کی صورت میں مریضوں کو منتقل کرنا بھی انتہائی مشکل ہے۔
ترجمان نےکہا کہ کئی کلو میٹر روڈ خستہ حال ہونے کی وجہ سے دھول مٹی اڑتی رہتی ہے جس کی وجہ سے اطراف کے مکینوں اور مسافروں میں سانس و گلے کی مختلف بیماریوں سے دوچار ہونے کی شکایتوں میں اضافہ ہوا ہے جبکہ سڑک نہ ہونے کی وجہ گاڑیوں سمیت دیگر ٹرانسپورٹ کا خراب ہونا بھی معمول بن چکا ہے نیز تعمیراتی کام میں سست روی اور حکام کی عدم دلچسپی کے سبب ٹریفک حادثات میں بھی واضح اضافہ ہوا ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ ضلع بارکھان میں معیاری انفراسٹرکچر، نقل و حمل اور خدمات کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ بارکھان رقبے اور آبادی کے لحاظ سے بڑا ضلع ہے مگر یہاں انفراسٹرکچر کے مسئلے کو اب تک حل نہیں کیا گیا ہے بلکہ پیٹ پرستوں نے اسمبلیوں میں منتخب ہو کر انفراسٹرکچر کی تبدیلی کے نام پر کرپشن کا بازار گرم کر کے رکھا ہوا ہے۔ اس سڑک کی تعمیر سے غریب، کمزور اور الگ تھلگ کمیونٹیز کو دیگر علاقوں، اسکولوں اور بازاروں تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ یہ سماجی اور اقتصادی ترقی کی کلید ہے۔
اس کے علاوہ انفراسٹکچر میں مثبت تبدیلی، تعلیمی اداروں، ہسپتال اور دیگر سماجی زندگی سے منسلک اداروں سمیت سڑکوں کی تعمیر اور مرمت کا کام دیہی علاقوں میں لوگوں کی زندگیوں پر مثبت اثر ڈالتا ہے۔ ریاست اور شہری کے درمیان بنیادی معاہدہ ہی یہی ہوتا ہے جس پر عملدرآمد کرتے ہوئے عوام ٹیکس ادا کرتے ہیں لہٰذا ریاست کی ذمہداری ہے کہ عوام کے ٹیکسوں سے حاصل شدہ رقم عوام پر خرچ کرے لہذا سب سے پہلے موجودہ حکومت کو سڑک کیلئے مختص کی جانے والی پوری رقم انہیں بہتر اور مستحکم بنانے پر صرف کی جانی چاہئے تاکہ علاقے کی سماجی اور معاشی زندگی پر اس کے مثبت اثرات پڑ سکیں۔