واشنگٹن (ہمگام نیوز ) یورپی ممالک کی طرف سے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کے ردعمل میں وائٹ ہاؤس نے بدھ کے روز اعلان کیا کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے فلسطین کی ریاست کو یکطرفہ طور پر تسلیم کرنے کی مخالفت کی ہے۔ یاد رہے آئرلینڈ، ناروے اور سپین نے 28 مئی کو فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

اے ایف پی کے حوالے سے قومی سلامتی کونسل کی ترجمان ایڈرین واٹسن نے کہا کہ بائیڈن کا خیال ہے کہ فلسطینی ریاست کا قیام دونوں فریقوں کے درمیان براہ راست مذاکرات کے ذریعے ہونا چاہیے ناکہ یکطرفہ تسلیم کرنے کے ذریعے سے۔

اسرائیل نے آئرلینڈ اور ناروے میں اپنے سفیروں کو ہنگامی مشاورت کے لیے طلب کرلیا۔ ان دونوں ممالک نے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کی طرف پیش قدمی کی ہے۔ اسرائیل کے قومی سلامتی کے مشیر نے جنگ کے خاتمے کے بعد فلسطینی ریاست کے قیام کی اجازت نہ دینے کا عہد بھی کیا ہے۔

پہلے ناروے کے وزیر اعظم جوناس گہر سٹورہے نے اعلان کیا کہ ان کا ملک 28 مئی سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے گا۔ پھر آئر لینڈ نے بھی ایسا ہی اعلان کردیا۔ بعد ازاں سپین کے وزیراعظم نے اعلان کیا کہ ان کا ملک بھی 28 مئی کو فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا۔ انہوں نے کہا اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو دو ریاستی حل کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

اسرائیل کی سنگین نتائج کی دھمکی

اسرائیلی وزیر خارجہ یسرائیل کاٹز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ آج میں آئرلینڈ اور ناروے کو سخت الفاظ میں پیغام بھیج رہا ہوں کہ اسرائیل اس پر خاموش نہیں رہے گا۔ دونوں ملکوں کی جلد بازی کے ان اقدامات کے سنگین نتائج ہوں گے۔ اگر سپین فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اپنے وعدے کو پورا کرے گا تو اس کے خلاف بھی اقدامات کیے جائیں گے۔ فلسطینیوں نے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔

مارچ میں تینوں ملکوں نے سلووینیا اور مالٹا کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ بیان میں فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔

حماس کیلئے انعام

اسرائیل نے کہا کہ مذاکراتی حل کے بغیر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا ایرانی حمایت یافتہ حماس کے لیے ایک “انعام” ہے۔ فرانسیسی وزیر خارجہ سٹیفن سیگورنیٹ نے کہا ہے کہ فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنا ممنوع نہیں ہے لیکن ابھی ہمارے ملک کے لیے ایسا کرنے کا وقت نہیں آیا۔

عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل احمد ابو الغیط نے ان تینوں ملکوں کے تنازع کی تاریخ میں دائیں جانب کھڑا کرنے والے اس اہم قدم کا خیرمقدم کیا۔ دیگر متعدد عرب ملکوں نے الگ سے بھی اس اقدام کو سراہا ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ دیگر یورپی ممالک بھی میڈرڈ، ڈبلن اور اوسلو کے اس مشترکہ اقدام میں شامل ہوتے جائیں گے۔

واضح رہے مارچ میں برسلز میں سلووینیا، مالٹا، آئرلینڈ اور سپین کے رہنماؤں نے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا تھا جس میں انہوں نے چاروں ممالک کی طرف سے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

واضح رہے سویڈن یورپی یونین کا پہلا رکن ملک تھا جس نے 2014 میں فلسطین کی ریاست کو تسلیم کیا تھا۔ اس کے بعد مالٹا اور قبرص نے بھی فلسطین کو مان لیا۔ ریاست فلسطین کو 1988 میں مشرقی یورپی ممالک نے تسلیم کیا تھا۔ یہ ممالک اس وقت “سوویت کیمپ” کا حصہ تھے۔ ان ملکوں میں بلغاریہ، چیکوسلوواکیہ ( بعد میں یہ جمہوریہ چیک اور سلوواکیہ میں تقسیم ہوگیا)، ہنگری، پولینڈ اور رومانیہ شامل ہیں۔ 9 مئی کو سلووینیا کی حکومت نے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کا حکم نامہ جاری کیا جسے 13 جون تک پارلیمنٹ کو منظوری کے لیے بھیجا جائے گا۔

سات اکتوبر کو حماس کے حملے کے نتیجے میں جنگ شروع ہوئی۔ حماس نے اس حملے میں 1170 اسرائیلی کو ہلاک کیا اور اڑھائی کو یرغمال بنایا تھا۔ 124 کے قریب اسرائیلی اب بھی حماس کی قید میں یرغمال ہیں۔ ان میں سے بھی 37 کے متعلق خیال کیا جارہا ہے کہ وہ اسرائیلی بمباری میں مرچکے ہیں۔ صہیونی فوج نے بمباری، گولہ باری، فائرنگ اور دیگر ذرائع سے حملے کرکے اب تک 35647 فلسطینیوں کو شہید کردیا ہے۔