بلوچ قوم کی آزادی کی جدوجہد ایک طویل اور پیچیدہ تاریخ ہے، جو بیرونی طاقتوں اور داخلی چیلنجز سے بھری ہوئی ہے۔ بلوچستان کی سرزمین ہمیشہ سے بڑی عالمی طاقتوں کے مفادات کے مرکز میں رہی ہے، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایران اور پاکستان نے بلوچوں کو اپنے اپنے مفاد میں استعمال کیا ہے۔ تاہم، بلوچ قوم کے لیے یہ وقت ہے کہ وہ دشمن کی سازشوں کو پہچانے اور اپنے اتحاد کو مستحکم کرے۔ اس مضمون میں ہم تاریخی حوالوں کے ذریعے یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ بلوچ قوم کو اپنے دشمنوں کی چالوں کو سمجھنے اور ان سے بچنے کی ضرورت ہے، تاکہ وہ اپنی آزادی کی حقیقی منزل کی طرف قدم بڑھا سکے۔
ایران اور پاکستان:
بلوچ قوم کے ازلی دشمنپاکستان اور ایران دونوں نے ہمیشہ بلوچستان کے قدرتی وسائل کو اپنی حکومتوں کی مضبوطی کے لیے استعمال کیا ہے، جبکہ بلوچوں کی آزادی اور خودمختاری کو نظرانداز کیا۔ ایران کے تاریخی قبضے کی ایک مثال 1928 میں قلات کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے کی صورت میں ملتی ہے، جس میں خان آف قلات کی حکومت کو ایران کے زیر اثر لایا گیا۔ ایران نے بلوچ علاقوں میں فوجی طاقت استعمال کی اور بلوچوں کے حقوق کو کچلا، تاکہ وہ ان کے وسائل پر قبضہ کرسکے۔
پاکستان کی بات کی جائے تو 1947 کے بعد، جب پاکستان نے بلوچستان کو اپنے ساتھ شامل کیا، تو اس کے بعد سے بلوچستان میں مسلسل شورش اور مزاحمت دیکھنے کو ملی۔ پاکستان نے بلوچ قوم کو معاشی طور پر کمزور اور سیاسی طور پر تقسیم کرنے کے لیے مختلف حکمت عملیوں کا استعمال کیا۔ یہ حکمت عملیاں نہ صرف بلوچوں کی خودمختاری کی راہ میں رکاوٹ بنیں، بلکہ اس نے انہیں اپنے ہی وطن میں غیروں کے مفادات کے لیے استعمال ہونے کی حالت میں دھکیل دیا۔
بلوچ قوم کی آزادی اور دشمن کے ساتھ کھڑے ہونے والوں کا کردار بلوچ قوم کی آزادی کا سوال اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس قوم کے اندر کے کچھ افراد دشمن کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ دشمن کا غصہ وقتی ہوسکتا ہے، لیکن وہ لوگ جو دشمن کے ساتھ مل کر اپنے قوم کے مفاد کو نقصان پہنچاتے ہیں، ان کا عمل مکمل منصوبہ بندی پر مبنی ہوتا ہے۔ دشمن کا غصہ وقتی طور پر کم ہوسکتا ہے، لیکن اس کے ساتھ کھڑے ہونے والے افراد کی منصوبہ بندی میں دیرپا اثرات موجود ہیں۔
پاکستان اور ایران دونوں ممالک نے بلوچ قوم کی آزادی کو کچلنے کے لیے ہمیشہ اندرونی اختلافات کا فائدہ اٹھایا ہے۔ بلوچ سرداروں، سیاسی رہنماؤں، اور کچھ طاقتور افراد کو اپنے مفادات کے تحت خرید کر ان کے ذریعے قوم کی مزاحمت کو تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں بلوچ قوم کی مزاحمت کمزور پڑ گئی، اور آزادی کا خواب دور ہوتا گیا۔ تاہم، یہ حقیقت بھی موجود ہے کہ دشمن کی سازشیں ہمیشہ کامیاب نہیں رہیں، اور بلوچ قوم نے تاریخ میں کئی مواقع پر اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کی ہے۔
تاریخی حوالے اور بلوچوں کی مزاحمت
بلوچ قوم کی تاریخ میں مزاحمت کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ نواب نوروز خان کی قیادت میں بلوچوں نے 1948 میں پاکستان کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کی کوشش کی، لیکن انہیں کامیابی نہ ملی۔ اس کے بعد کے دہائیوں میں بھی بلوچوں نے ایران اور پاکستان کے خلاف اپنی آواز بلند کی، لیکن دونوں ریاستوں نے طاقت کے ذریعے بلوچوں کی آزادی کی کوششوں کو کچل دیا۔
پھر 1973 میں، بلوچستان میں ایک اور تحریک اٹھی جس کا مقصد بلوچستان کی خودمختاری اور آزادی تھا۔ اس وقت کے صدر ایوب خان کی حکومت نے بلوچ تحریک کو طاقت کے ذریعے دبانے کی کوشش کی، اور اس تحریک کو تقریباً کچل دیا گیا۔ تاہم، اس وقت کی مزاحمت نے یہ ثابت کیا کہ بلوچ قوم اپنے حقوق کے لیے لڑنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتی ہے، اور اس کی آزادی کا خواب کبھی ختم نہیں ہوتا۔
دشمن کی سازشوں سے بچنا
بلوچ قوم کو اس وقت دشمن کی سازشوں سے بچنے کی ضرورت ہے جو انہیں اپنے مفاد میں استعمال کر رہے ہیں۔ ایران اور پاکستان دونوں نے ہمیشہ بلوچستان کے قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ہے، اور اس کے لیے انہوں نے مختلف اندرونی گروپوں کو اپنے ساتھ ملا کر بلوچستان میں تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ بلوچ قوم کو اپنی آزادی کی جدوجہد کو کامیاب بنانے کے لیے اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ دشمن سے صلح کرنا ضروری ہو سکتا ہے، لیکن ان کے ساتھ کھڑے ہونے والوں کا ساتھ کبھی نہیں دینا چاہیے۔ دشمن کے ساتھ ساتھ چلنا قوم کی آزادی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہو سکتا ہے۔
بلوچ قوم کی آزادی کا سوال ایک طویل اور پیچیدہ جدوجہد ہے۔ تاریخ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ دشمن کی چالوں کو سمجھنا اور ان سے بچنا بہت ضروری ہے۔ بلوچ قوم کو اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ دشمن کی سازشوں کا شکار ہونے کے بجائے، انہیں اپنے اتحاد کو مستحکم کرنا ہوگا اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنی ہوگی۔ تب ہی بلوچستان کی آزادی کا خواب حقیقت بن سکتا ہے۔