واشنگٹن (ہمگام نیوز) ریپبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم نے کہا ہے کہ نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری کو عہدہ سنبھالنے سے قبل غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کا معاہدہ دیکھنا چاہتے ہیں۔
غزہ پر ڈیل حاصل کرنا صدر بائیڈن کی ان کے آخری دو مہینوں کے عہدہ صدارت کے دوران اولین ترجیحات میں سے ایک ہے، لیکن حالیہ ہفتوں میں کوئی واضح پیش رفت نہ ہونے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ٹرمپ کے حصے میں آسکتا ہے۔
اسرائیلی حکام کا خیال ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ غزہ کے حوالے سے ایک مختلف انداز اختیار کر سکتی ہے۔ ٹرمپ غزہ کے مستقبل اور جنگ کے بعد کے حالات کے بارے میں بائیڈن انتظامیہ سے مختلف موقف اختیار کرسکتے ہیں۔
لیکن گراہم جو ٹرمپ کوں خارجہ پالیسی خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ کے امور میں مشورہ دیتے ہیں نے کہا کہ ٹرمپ قیدیوں کی رہائی اور جنگ کو جلد از جلد ختم کرنے کا معاہدہ چاہتے ہیں۔ ان کی ترجیح میں اقتدار سنھبالنے سے قبل غزہ جنگ ختم کرنا اور قیدیوں کا معاہدہ کرنا ہے۔
غزہ میں اب بھی 101 قیدی حماس کے زیر حراست ہیں جن میں سات امریکی شہری بھی شامل ہیں۔ اسرائیلی انٹیلی جنس سروسز کا خیال ہے کہ ان میں سے تقریباً نصف اب بھی زندہ ہیں۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق ایک سال سے زائد عرصے کی جنگ میں 44 ہزار سے زائد فلسطینی مارے گئے۔
گراہم نے کہا کہ “ٹرمپ قیدیوں کی رہائی کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ پرعزم ہیں اور جنگ بندی کی حمایت کرتے ہیں جس میں یرغمالیوں کا معاہدہ بھی شامل ہے”۔
انہوں نے مزید کہا کہ “میں چاہتا ہوں کہ اسرائیل اور خطے کے لوگ جان لیں کہ ٹرمپ کی توجہ یرغمالیوں کے معاملے پر ہے۔ وہ خون خرابہ روکنا اور لڑائی ختم کرنا چاہتے ہیں”۔ انہوں نے مزید کہا کہ “مجھے امید ہے کہ صدر ٹرمپ اور بائیڈن انتظامیہ عبوری دور کے دوران قیدیوں کی رہائی اور جنگ بندی کے حصول کے لیے مل کر کام کریں گے”۔
مشرق وسطیٰ کے اپنے اس ماہ کے دوسرے دورے سے واپسی کے بعد Axios سے بات کرتے ہوئے گراہم نے دعویٰ کیا کہ ٹرمپ کو غزہ میں معاہدے کی ضرورت ہے اس سے پہلے کہ وہ خطے میں اپنی خارجہ پالیسی کے اہم مقاصد پر توجہ مرکوز کر سکیں۔
گراہم نے اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ جیسے انتہا پسندوں کی طرف سے غزہ پر اسرائیلی قبضے کو جاری رکھنے کی تجاویز پر اعتراض کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ “کسی بھی سعودی اسرائیل امن معاہدے میں فلسطین کا معاملہ شامل ہونا چاہیے”۔
گراہم نے کہا کہ “حماس کے خلاف بہترین انشورنس پالیسی اسرائیل کا غزہ پر دوبارہ قبضہ نہیں بلکہ فلسطینی معاشرے کی اصلاح ہے۔ یہ کام صرف عرب ممالک ہی کر سکتے ہیں”۔
بائیڈن اور ٹرمپ نے دو ہفتے قبل اوول آفس میں اپنی دو گھنٹے کی ملاقات کے دوران غزہ میں قیدیوں کے معاملے ، ممکنہ معاہدے اور جنگ بندی پر تبادلہ خیال کیا۔
یہ معاملہ وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان اور ٹرمپ کے آنے والے قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز کے درمیان ہونے والی ملاقات اور بائیڈن کے مشرق وسطیٰ کے سینئر مشیر بریٹ میک گرک اور ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وِٹکوف کے درمیان ہونے والی بات چیت کے دوران بھی سامنے آیا۔
بائیڈن نے منگل کو ایک فون کال کے دوران نیتن یاہو سے کہا کہ لبنان میں جنگ بندی کے معاہدے کے بعد اب توجہ غزہ میں کسی معاہدے تک پہنچنے پر مرکوز ہونی چاہیے۔
ٹرمپ کی ترجمان کیرولین لیویٹ نے Axios کو بتایا کہ ٹرمپ کو دوبارہ منتخب کیا گیا ہے کیونکہ “امریکی عوام ان پر اعتماد کرتے ہیں کہ وہ ہمارے ملک کی قیادت کریں گے اور مشرق وسطیٰ میں استحکام اور امن بحال کریں گے”۔
گراہم نے دعویٰ کیا کہ ٹرمپ کی جیت کی وجہ سے خطے میں سفارت کاری آسان ہو جائے گی کیونکہ لوگ ان سے ڈرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ “اگر آپ برے انسان ہیں اور آپ ٹرمپ سے نہیں ڈرتے تو آپ بھی ایک احمق انسان ہیں۔ برے اور احمق لوگ زیادہ دیر تک نہیں رہتے”۔