سه شنبه, اکتوبر 1, 2024
Homeآرٹیکلز_~*جب کھیت جاگے*_~ مصنف: کرشن چندر تجزیہ کار: ایس کے...

_~*جب کھیت جاگے*_~ مصنف: کرشن چندر تجزیہ کار: ایس کے بلوچ

 

 

*کچھ مصنف کے بارے میں* جب کھیت جاگے، کرشن چندر کی لکھی کوہی ایک ناول ہے، جسے کشن چندر نے فنکارانہ اور عمدہ طریقے سے لکھا ہے۔ کرشن چندر خود ایک افسانہ نگار ہیں جس کی ناولوں نے ہندستان کی ادب میں ایک اعلی مکان حاصل کی ہے، بقول سردار جعفری ” کرشن چندر کی کہانیوں میں ہندستان کی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو ہے جہاں سے اس نے اپنا خمیر حاصل کیا ہے اس کی رگوں میں وقت اور تاریخ کا خون ہے اور دل میں عوام کے دل کی دھڑکن۔”

اس کی افسانہ نگاری نے ہندوستان میں سامراجی طاقتوں کی تشدد، جاگیرداری نظام، اور غلامانہ بربریت دیکھی ہے۔ اس لیے،ہمیں سمجھنےمیں غلطی نہیں ہوتی کہ اس نےہمالیہ کےاس لینن، گرامشی، اسٹالن، ہوچی منہ، گورکی، ہرن برف، فینن اور ژاں پال سارتر کی وہ شفق رنگ دھرتی دیکھی ، جہاں انسان پہلی بارمکمل طور پر آزاد ہوا ہوے۔

*کچھ کتاب کے بارے میں“`*

جب کھیت جاگے نوآبادیاتی تسلط ،ظلم و جبر، طبقاتی نظام کے موضوعات کی کوج کرنے والا ایک نہایت طاقتور بغاوت ہے، اکیسویں صدی حساس فکشن کی انتہاہی بلندیوں کو چھو لیتا ہے۔ یہ پورژوا اور پرولتاریہ کی زندگی کی طرف ایک اشارہ ہے، یہ محبت کی زبان ہے جسے انسان الگ چیز کے لیے الگ الفاظوں سے نوازتا ہے اور استعماری نظام کے خلاف اٹھنے والی انقلابی کی طرح سرفروش ہے۔ کتاب زبان ہی تو ہے، اس لیے درد کو مزید محسوس کروا کر انسانیت کو جنم دیتی ہے۔ جس انسانیت نے ایک استعمارذدگان کو باغی بنا ڈالا، کمزور کو طاقتور بناڈالا اور ظلم کے خلاف کہیں کسانوں کو زمیندار بناڈالا وہی انسانیت نے ہندستان کی دھرتی پر ایسے ناولوں کی زبان بولتے چلے آرہے ہیں۔ برٹش کی قبضہ گیریت کے بعد ہندستان کی دھرتی پر کہیں ایسے جاگیرداروں نے جنم لی کہ پرزور کسانوں کے زمینوں کو چین کر مزید اپنے حکم اس دھرتی کے باشندوں پر چلاتے رہے اور قوم کو اپنے غلام بنانے کی کوشش کی لیکن اسی دھرتی پر کچھ ایسے انقلابی لوگوں کا جنم ہوا جو کہ اس جاگیرداری نظام کے خلاف اپنے دلوں میں ایک نفرت کو جگا دی آئندہ وہ نفرت جاگریدروں کے لیے طوفان کی طرح پیل گئی۔

*تجزیہ*

اگر اس ناول کی موضوع کا جائزہ لیا جائیں تو نوآبادیاتی نظام اور جاگیرداری نظام کی جو لہر ہندستان کی دھرتی پر ہے وہ ایک نہ ختم ہونے والی طوفان کی طرح ہر کسان کی زندگی اور چادر چار دیواری کو تار تار کرتے آرہے ہیں جو کہ Arundathy Roy کی کتابیں واضح طور پر سامنے ہیں کہ جن کی کتابوں کی وجہ سے پورے دیش میں ایک انقلاب برپا ہوا اور لوگوں کو نئ زندگی کا آغاز کرنے کا موقع فراہم ہوچکا ہے. کشن چندر کی اس ناول میں ایک قوم کی ذکر کر چکا ہے جسے وٹی کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس قوم کے لوگ اکثر ان پڑھ اور جاہل قرار دئیے جاتے تھے لیکن وقت جلد از جلد الگ سے الگ ہوتی گئی۔ بس ابھی راگھوراو کی عمر بھی اتنی نہ تھی کہ وہ جنگلوں کی طرف جاکر انقلابی تربیت حاصل کرسکتے، ابھی تو انہیں کچھ سیکنا ہوتا، یہ باشعور، ہوش مند اور بہادر انسان تھا کہ انہیں اپنی زندگی کی ہر چیز پر حیرانگی ہوتا جارہا تھا، اپنے باپ کی حرکتوں سے، کسانوں کی خاموشی سے، عورتوں کی جسم فروشی اور بعد میں ان کے خاموشی سے، زمیندار اور کسان کے بیٹوں کے درمیان کی تضاد سے اور اسے یہ اپنی دھندلی سی یاد سے کوہی فرق نہ تھا کہ اس کی ماں نے اسے تین سال کی عمر میں چھوڑ کے مرگئ، بس وہ تو اپنے باپ کو ماں، دوست، ساتھی، اور باپ جیسا سمجھ چکا تھا۔ اس کی باپ کی اپنی زمین نہ تھی، جیسے راملو، رنگڑو، سوم وپا اور باقی کسانوں کے پاس زمین نہ تھی۔ اس کا گاؤں سری پورم ساقی ایک دلکش، روہی کے پھیلے ہوئے کھیت، تاڑکے پتوں سے چھتے ہوئے گھر، گھروں کے بیچ میں سیاہ چٹانوں کارتس بنڑا، اور اس میں بہت ایسی خوبیاں تھی کہ وہ سارے بھلا معلوم ہونے لگے جب راگھوراو اپنے باپ کے ہمراہ اٹھاون وٹوں کے ساتھ سوریہ پیٹ میں جانے لگے تھے. اسی وقت راگھوراو کے باپ نے اپنی نفرت کو راگھوراو کو سونپ دیا تو وہ راگھوراو کا تجسس، تلاش، اور دریافت کرنے کا جو مادہ تھا وہ مزید بڑھنے لگے،” اس کے دل کے اندر جو گل بوٹے آگے ہیں ان کے لیے اس کی سرزمین میں انہیں نفرتوں کی کھاد ڈالی گئ ہے ”

دراصل اسی نفرت کی وجہ سے ناگیشور اور راگھوراو کا محبت شروع ہوا۔ اس مقدس نفرت کو ایک پاکیزہ وراثت کی طرح اٹھا کر اپنے دل میں رکھ لیا تھا ۔ کہ وہ نفرت اپنے زندگی سے تھی ۔ لوگوں کو خبر ہی نہیں تھا کہ راگھوراو جیسے لڑکا ایک دن اپنے گاؤں کے سارے زمین کسان کو زمیندار( زمیندار گاؤں کے پڑے لکھے، پولیس پٹیل، پٹواری، پروہت اور باقی کارندوں کے ساتھ باگ چکے تھے۔ زمیندار کے خیال میں تھا کہ پڑھنے لکھنے سے بغاوت پھیلی ہے۔ نئے نئے خیال دل میں آتے ہیں۔ کسان جو کو لھو کے بیل کی ہوتا ہے۔ اپنے آپ کو انسان سمجھنے لگتا اور زمیندار کو کولھو بیل کی ضرورت تھی ، انسان کی نہیں) سے واپس کراتے ہیں اور محبت یعنی اپنی پیاری چندرہ کی قربانی دیکر، پھانسی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جھیل میں ہنس کر باپ کو کہتا ہے کہ باپو، تمہں وہ میلہ یاد ہے،جب رامیلہ سیٹی کی دکان پر کھڑے کھڑے میں نے ریشم کے کپڑے کو ہاتھ لگایا تھا اور رامیا سیٹی نے مجھے گالیاں دی تھیں اور تو نے ریشم کے تھان سے میرا ہاتھ کھینچ لیا تھا، شاید اس وقت اپنے لڑکے کی دل کی حالت جانتا تھا، جو جگن ناتھ ریڈی کے لڑکے پرتاپ ریڈی کی طرح ریشم کی قمیص پہننا چاہتا تھا شاید تو اپنے دل میں تو جانتا تھا کہ ریشم وٹیوں کے لیے نہیں ہے، سارا گاڑھا ادھر اور سارا ریشم ادھر۔آخر پانسی کے دن کسانوں نے انہیں ریشم کی قمیص پہنایا تھا، اس راگھوراو کو لگ رہا تھا کہ وہ صرف لال ریشم کی قمیص نہیں پہنے ہوئے ہے۔ اپنے عوام کا جھنڈا اور ان کی جدو جہد کا عظیم نشان پہنے ہوئے ہے۔ جیسے وہ اپنا خون پہنے ہوئے ہے، اپنے کھیت پہنے ہوئے ہے، اپنے باپ کی شفقت اور اپنی ماں کا سہاگ پہنے ہوئے ہے۔ راگھوراو کو یہ بھی سمجھ میں آچکا تھا کہ مائیں اپنے بچوں کو چھوڑ کر ماں دھرتی کے لیے قربانی کا رستہ چنتے ہیں تو انہیں ساری ماؤں کے بچے اپنے لگتے ہیں کیونکہ نہ ان کے بیٹے کسی بڑک اٹھنے والی آگ سے جل جائیں لیکن وہ پہلے باقی ذندہ یعنی اپنے ساتھ کھڑے ہونے والے نوجوانوں کی خیریت دریافت کرتے ہیں جس طرح کاشمہ کے لہجے میں شفقت، بڑی گہری مامتا اور سچی پکار تھی۔ یہ عورت ہلا ریڈی کی ماں تھی۔ جس کی لاش کو کریم نگر کے گاؤں میں راگھوراو دیکھ کر آیا تھا۔ انہیں یہ بھی سمجھ آچکا تھا کہ ا گر دیش کے لیے عزت و احترام، قربانی کی جزبہ اور خوشبو سے معطر ہو تو ہر انسان مقبول اور اس کی بیوی کی طرح اپنی قوم کی خدمت کرتے رہیں گے اور ماں دھرتی کے بچوں کے لیے خود راگھوراو کی طرح جیل کی وارڑو کو اپنے جزبے سے حیران کرتے ہوئے کسی بھی دشمن کو ٹھکانے تک پہنچنا کے لیے اپنے بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہوکر آنے والے وقتوں میں کتابوں کی شکل میں موجود ہونگے۔ انہیں یہ پہلے پتہ تھا کہ “ اگر ظلم سے مدافعت کرنا تشدد ہے، اگر اپنی جان کی حفاظت کرنا، اپنی ماؤں کی عزت بچانا ، اپنے گاؤں کے کیھتوں کی سنہری بالیوں کی حفاظت کرنا تشدد ہے تو پھر خود جینا بھی تشدد ہے اور سانس لینا بھی تشدد ہے اور دل کا دھڑکن بھی تشدد ہے۔” اس نے سب قبول کرتے ہوئے اپنی دیش کے لیے جان دی۔

اس ناول کو ہر وہ انسان پڑھیں جن کی تمنا ہے کہ آنے والے وقت میں انسانیت کا رستہ اپنا لیں۔

 

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیں

فیچرز