چهارشنبه, اکتوبر 9, 2024
HomeخبریںHollie McKay & Mohasin Saleem Ullah Fox New Report مترجم: کوہ بلوچ

Hollie McKay & Mohasin Saleem Ullah Fox New Report مترجم: کوہ بلوچ

ایران، سعودی کیساتھ عوضی جنگ میں، پاکستان میں اپنی اثرو رسوخ مزید وسعت دے رہی ہے

تحریر: Hollie McKay, Mohsin Saleem Ullah
Fox News report
مترجم: کوہ بلوچ

ایران اپنی وابستگی پاکستان کے سیاسی اور عسکریت پسند شیعہ گروہوں کیساتھ مزید بڑھارہی ہے جسے خارجہ امور کے ماہرین دنیا کے دوسرے بڑے مسلمان آبادی والے ملک میں سعودی عرب کیساتھ ایک بڑھتی ہوئی عوضی جنگ خیال کرتے ہیں۔

ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل اینتونی شیفر جو سابقہ انٹیلی جنس کا ماہر ہے نے کہا کہ “ایران اقلیتی قبائلی علاقوں میں باغی گروہ بنانے کے عمل میں مدد جاری رکھی ہوئی ہے جہاں سندھی اور بلوچ علیحدگی پسند گروہ موجود ہےانھیں ایران سرمایہ اور امداد دینے کے عمل میں مدد کرنے کا خواہاں ہے۔”
شیفر اور دوسروں کا خیال ہے کہ خطے میں امریکہ کی کوششوں کو غیر مستحکم کرنے کے لئے ایران نے پاکستان میں مدتوں شورش پسند تنظیموں کو معاشی مدد و کمک کرتی رہی ہے۔

ان گروہوں میں سے ایک تحریک جعفریہ پاکستان(TJP) ہے نے خوش دلی سے ایران کیساتھ اپنے تعلقات کو تسلیم مگر شورش میں اسکے مصروف عمل ہونے کے الزامات کی تردید کرتا ہے۔

دیدار علی جو ملک کے خطہ گلگت بلتستان (GB) میں تحریک جعفریہ پاکستان (TJP) کا صدر ہے نے Fox News کو بتایا “ہم پہ مبینہ طور پر ایک عسکریت پسند گروہ ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے مگر میں اس بیانیہ کو مستردکرتا ہوں۔ ہم اس وقت تک کسی بھی عسکریت پسندانہ سرگرمیوں میں شامل نہیں رہے ہیں تاہم گلگت بلتستان (GB) میں اہل تشیع کو فوقیت حاصل ہے۔”

1979 کے ایرانی انقلاب کے تقریبا عین وقت بننے والے تحریک جعفریہ پاکستان (TJP) کو سرکاری طور پر ایک اہل تشیع سیاسی پارٹی سمجھا جاتا ہے۔ اس پہ دہشت گردتنظیم ہونے کے پیش نظر حکومت پاکستان کی طرف سے دو مرتبہ پابندی عائد کیا جاچکا ہے۔ تحریک جعفریہ پاکستان کو امریکہ کا دہشت گردی پر مبنی تحقیق اور تجزیہ کنسوشیم (TRAC) ایک معاشرے میں ‘خالص اسلام،’ وجود میں لانے اور اہل تشیع خیالات کی نشرواشاعت کا تقسیم کار اور محافظ مرتکز ایک گروہ بیان کرتا ہے۔

سوال: لہذا تحریک جعفریہ پاکستان (TJP) کس طرح ایرانی طرز مسلمانی کے لئے وقف ہے؟

علی نے کہا “اشتراک کردہ نظریے کے تحت ایران کیساتھ ہمارے قریبی روابط ہے اور موجودہ طویل المدت رہنما اعلی، علی خامنائی، جو ہمارا اختیار مطلق ہے کے جھنڈے تلے ایک باہمی مقصد کے تحت متحد ہے۔ ہمارے لئے اسکے الفاظ کسی فرمان سے بالکل بھی کم نہیں ہے۔”

تحریک جعفریہ پاکستان کے رہنما اکثر تہران کا دورہ بھی کرتے ہیں لیکن دعوی کرتا ہے کہ انھیں ایرانیوں کی طرف سے کوئی براہ راست امداد موصول نہیں ہوتا ہے۔

علی نے کہا “ہم ایران کے رہنما اعلی کے براہ راست رہنمائی اور بالادستی میں چلتے ہیں جو ہمیں ایران جانے کا پابند بناتا ہے۔ میں اس حقیقت سے انکار نہیں کرونگا کہ ایران میں ہماری آمد پر ہمیں ایک ریاستی مہمان کا اعزازموصول ہوتا ہے کیونکہ ہم ان کے نظریے کی حمایت کرکے بڑے پیمانے پر حمایت حاصل کرنے کے پیش نظر اکھٹے کام کرکے نئے حکمت عملی مرتب کرتے ہیں لیکن اس کے گروہ کے ارکان کو ہماری مہمات چلانے کے لئے ماہانہ رقم دیا جاتا ہے تاہم ہم ایران سے براہ راست امداد وصول نہیں کرتے ہیں۔”

ریاستی محکمے کی دہشت گردی پر حالیہ ملکی تحقیقی دستاویز جو گذشتہ جولائی میں جاری کیا گیا، ایران جو کئی دہائیوں سے ایک امتیاز بنایا ہوا ہے کو دنیا میں دہشت گردی کا ‘بڑا’ سرپرست اور کفیل سے موسوم کرتا ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکہ تہران پر قدس فورس جو سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران (IRGC) کا ایک ممتاز اکائی ہے کو خفیہ کاروائیاں اور خطہ بھر کی عدم استحکام میں معاون بننے کے پیش نظر الزام عائد کرتا ہے۔

کئی امریکی خفیہ اور سفارتی عہدیداران کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ پاکستان میں دوسرے باغی گروہوں کے کاروائیوں کی نسبت جنگ زدہ ہمسایہ افغانستان مین ایرانی اثر ورسوخ حوالے زیادہ فکر مند ہے۔

افغانستان میں ایران اور اہل تشیع کے خلاف طالبان کے منشا سے اپنایا گیا انتہا پسند سنی مسلک بڑھتی ہوئی عوضی جنگ کا ایک اہم کردار ہے لیکن اہل تشیع کا سنی اکثریت آبادی کی لگ بھگ بیس (20) کروڑ آبادی کا اندازا بیس(%20) شرح فی صد بنتا ہے جو پاکستان میں نہایت ہی بہ کثرت شمار کیا جاتا ہے، ایران کی مزکورہ اہل تشیع کی خاموش حمایت معنی خیز ہے۔

جوناں بلیک جو ترقی اور تحقیق کی سند یافتہ جماعت (RAND) کے بزرگ سیاسیات ہے نے واضع کیا کہ “ایران اور پاکستان کے اندر اہل تشیع عسکریت پسند گروہوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے اثر ورسوخ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن جیسا کہ پاکستان میں اہل تشیع زیادہ تعداد میں ہے وہاں واضع پیمانے مقرر ہے کہ کس حد تک یہ کوشش آگے جا سکتے ہیں۔”

گلگت بلتستان جو پاکستان کے انتہائی شمالی حصہ پر واقع ہے شمال میں چین کے ساتھ اسکے متصل سرحدیں ہے، مشرق میں انڈیا جبکہ مغرب میں افغانستان اور وسطی ایشاء آتے ہیں۔ عہد ماضی میں ‘شمالی علاقہ،’ کہلاتی تھی۔ یاد رہے یہ اسلام آباد سے نیم خودمختار مگر ایک تسلیم شدہ ریاست کے خود مختاری بغیر چار سالوں تک غیر مستحکم، محروم استصواب علاقہ رہ چکی ہے۔

ایران کا علاقے میں مبہم موجودگی ایک سے زیادہ طریقوں میں گہری نگاہ اور آزمائش میں آچکا ہے،

ایران نے پاکستان اور افغانستان بالخصوص گلگت بلتستان کے علاقوں سے ہزاروں اہل تشیع کو شام میں برسرپیکار صدر بشار الاسد کے افواج کے شانہ بشانہ لڑنے کے لئے بھرتی کیاگیا ہے جنھیں ماہانہ تنخوائیں اور ما بعد جنگ ایران میں ملازمت کے مواقع فراہم کیا جاتا ہے۔ بھرتی کرنے والے اہل تشیع علماء جنھوں نے تہران میں پڑھا اور ان کے براہ راست تعلقات ہے، جنگجووں نے اپنی علاقائی اثر ورسوخ میں مزید اضافہ کرنا ہے۔

علی نے وثوق سے کہا “ہم پاکستانی حکومت کیساتھ مل کر کام کرنے کے خواہاں ہے مگر پاکستان سے گلگت بلتستان کے لئے آئینی حیثیت حاصل کرنا ہماری ترجیح ہے جو کھبی بھی زیر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ہم نے تاحال کیوں ایک حثیثت حاصل نہیں کر پائی ہے؟ اگر اس طرح ہوتا، میں پیش بینی کرسکتا ہوں کہ گلگت بلتستان طالبان کا ایک میدان کارزار بن جاتا۔

ماہر تجزیہ دق کا اظہار کرتے ہیں کہ خطے کے ازلی دشمن سعودی عرب اور ایران کے مابین پاکستان مزید پرتشدد اور پیچیدہ بیچوان جنگ میں تبدیل ہو گی۔

بلیک نے کہا “ایران اہل تشیع گروہوں کی پشت پناہی کرتی ہے اور سعودی عرب ان کی جو اس کے سنی عقائد پر عمل پیرا ہو۔ ایران اس ہم مذہبوں کی پرتشدد حملوں سے حفاظت کو بڑی حد تک ایک دفاعی کاروائی جیسے سمجھتی ہے جسے ریاست پاکستان عارضی طور پر روکنے کے بارے نارضا اور نااہل ہے۔”

فرقہ ورانہ بدامنی کو مٹانے کے لئے کچھ کوششیں عمل میں لائی جاتی ہے۔ مئی میں پاکستانی سیکورٹی فورسز نے صوبہ بلوچستان کے درالحکومت کوئٹہ کے قریب ایک چھاپے میں طالبان کے اتحادی گروہ جو لشکر جھنگوی (LeJ) کے نام سے جانا جاتا ہے کے کالعدم رہنماوں کو ہلاک کیا جو سو سے زیادہ اقلیتی اہل تشیع کے قاتل تھے۔

لشکر جنگوی (LeJ) ایک اہل تشیع مخالف کے طور ایرانی اسلامی انقلاب کے برخلاف تحریک تقریباچار دہائی قبل شروع ہوا جب تہران خاموشی سے اپنی انقلاب باہر موجود اہل تشیع برادری کو منتقل اور بڑھاوا دے رہی تھی جو بعدازیں شدت پسند طالبان اور القائدہ کے در اندازوں کیساتھ مل کر ایک صف ہوگیا۔

سپاہ صحابہ پاکستان (SSP) 1980 میں لشکر جنگوی میں سے ابھر کر سامنے آگیا اور پاکستانی حکومت نے مزکورہ سارے نام باضابطہ طور پر ممنوع قرار دیا تو گروہ کے اہم رکن، مولانا خلیل ثاقب، نے ایک نئی گروہ متحدہ دینی محاذ (MDM) کے عملیاتی نام سے 2013 میں بنیاد رکھا۔

اس نے دعوی کیا “اگر چہ پاکستان میں غیر سند یافتہ اسلحہ رکھنا غیر قانونی عمل ہے مگر گلگت بلتستان میں ہر کوئی دہشت گردی کے صورت میں مذاحمت کے لئے رکھتا ہے اور اسکے پاس غیر قانونی اسلحہ کے بھاری ذخیرے بھی ہوتے ہیں۔ جہاں تک مالیاتی امداد کا تعلق ہےہمیں کوئی پشت پناہ نہیں ہے۔”

ثاقب نے بعدازیں سعودی افراد سے ‘بھاری امداد،’ وصول کرنے سے انکار کرتے ہوئے رد کیا اور زور دیتے ہوئے کہا کہ ان کے گروہ کا ‘راسخ عقیدہ ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب مشترکہ اقدار کیساتھ برادرانہ ممالک ہے۔’

امریکہ گزشتہ پندرہ (15) سالوں کے دوران پاکستان کو احمقانہ طور پر امداد میں 33 ارب ڈالر سے زیادہ کا رقم دے چکا ہے اور انھوں نے ہمارے رہنماوں کو بیوقوف خیال کرتے ہوئے ماسوائے جھوٹ اور دھوکہ کے کچھ نہیں دیا۔ انھوں نے دہشت گردوں جنھیں ہم نے افغانستان میں تعاقب کیاکو محفوظ ٹھکانے فراہم کئے، تھوڑی سی مدد بس !

گروہ کا مقصد واضع ہے: اہل تشیع تحریک جعفریہ پاکستان کو گلگت بلتستان میں پیھچے دکھیلنا ہے۔

ثاقب نے کہا “یہ ایرانی گروہ سنی مسلمانوں کے بیگناہ ہلاکتوں اور عسکریت پسند سرگرمیوں میں ملوث رہ چکے ہیں۔ ہم اس ایرانی گروہ کی گلگت بلتستان سے مکمل صفایا کا مطالبہ کرتے ہیں کیونکہ انھوں نے بدامنی پیدا کیا ہے۔ ان کی نہ ختم ہونے والی فرقہ وارآنہ تشدد نے ہم سےاپنی حقوق کی دفاع کے لئے لڑنے کا تقاضہ کیا ہے۔ ہم حکومت پاکستان سے ان کے خلاف سخت کاروائی کی منصوبہ بندی چاہتے ہیں۔”

ثاقب نے زور دیا “ان کے پچاس سے زائد کیمپس ہے جو پاکستان میں،” افغانستان کے لئے “عسکریت پسندوں کو تربیت دینے کے لئے چلارہے ہیں۔” اور اس نے طویل المدتی جنگ جیسے ‘نعمت،’ جس نے ‘مواقع،’ کے دروزے کھولے پر تشکر کا اظہار بھی کیا۔

امریکی خفیہ اور فوجی عہدیداراں نے عصر بعداز 2011 دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ایک بنیادی شراکت دار ہونے کے ناطے امداد میں سینکڑوں لاکھوں ڈالرکے دیے جانے کے باوجود پاکستان پر دہشت گرد جیسے گروہوں کو پناہ دینے اور مدد فراہم کرنے کا الزام عائد کرچکے ہیں۔

پاکستان مسلسل اور سختی کیساتھ ایسے الزامات کو رد کرتی ہے۔

جنوری میں صدر ٹرمپ نے پاکستان کی دہشت گرد ٹھکانوں کے خلاف کاروائی میں ناکامی کا الزام عائد کرتے ہوئے نئے سال کا ٹویٹ کیا، جو افغانستان میں سرحد پار سے جنگ جاری رکھی ہوئی ہے اور ملک کی دو ارب ڈالر فوجی امداد بند کردیا۔ گزشتہ ہفتہ امریکہ نے مزید 30 کروڑ ڈالر روک دیا۔

لیکن اسلام آباد میں کئی عہدیدارآں نے Fox New سے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب ملک پہ ان کا مکمل قابو ہے جو ایک بار دہشت سے بھری ہوتی تھی اور اس طرح کے تمام محفوظ ٹھکانوں کا مکمل صفایا اور خاتمہ کیا جا چکا ہے۔

اور جبکہ پاکستان کے نئے وزیر اعظم، عمران خان، نے سعودی عرب اور ایران کے مابین بڑھتی ہوئی معاندانہ تعلقات بہتر بنانے میں ایک درمیانی آدمی جیسا مدد کرنے کا عزم ظاہر کر چکا ہے خیال رہے دونوں اطراف کیھلنا اسلام آباد کو ایک دلدل جیسا پھنسا رہا ہے۔

پاکستان اور ایران کا نزدیک ہونے کا خیال کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں دونوں ممالک نے ساڑھے سات (7.5) ارب ڈالر مالیت کی پاکستان ایران پائپ لائن منصوبہ جو پانچ سال قبل شروع ہوا مگر بڑی حد تک رکا ہوا ہے کو جاری رکھنے پر بات چیت کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو چکا ہے۔ ابھی تک سرکاری حکام ٹرمپ کے مشترکہ کاروئی کے جامع منصوبہ بندی (JCPOA) بہتر طور پر ایرانی جوہری معاہدہ سے جانا جاتا ہے سے انخلا اور اقتصادی پابندیوں کے دوبارہ نفاذ کے پیش نظر کس طرح اس منصوبے کی راہ میں رکاوٹ ہوسکتی ہے پر اندازہ لگایا جارہاہے۔

دوسری طرف، اسلام آباد اور ریاض ایک قریبی فوجی تعاون کے تاریخ کیساتھ طویل المدت قوی اتحادی رہے ہیں تاہم دوطرفہ تعلقات کو خراب کرتے ہوئےپاکستان نے یمن میں اہل تشیع اقلیتی حوثی باغیوں کے خلاف سعودی قیادت جنگ میں فوجیوں کے شراکت سے انکار کیا۔

پاکستان کی اسلام آباد اور واشنگٹن سفارتخانہ میں خارجہ امور کی وزیر نے رائے دینے کے درخواست پر جواب سے گریز کیا۔

تہران میں وزیر خارجہ نے رائے دہی سے انکار کیا اور امریکہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کی محکمہ ایرانی مفادات جو پاکستانی سفارتخانہ کے اندر ہی ہے اس بات کو لے کر کہ امریکہ کا کوئی براہ راست سفارتی تعلقات نہیں نے کوئی جواب نہیں دیا۔http://www.foxnews.com/world/2018/09/12/iran-in-shadow-proxy-war-with-saudis-expands-its-pakistan-influence.html

یہ بھی پڑھیں

فیچرز