نظریہ تصورات کا میل یا سیٹ ہوتا ہے جو خاص خیال رکھتا ہے کہ سماج کو کسے ہونا چاہئیے اورکس طرح سیاسی حوالے سے اس مقصد کو حاصل کیا جا سکتا ہے اس سیٹ مٰین قدامت پرستی سوشلزم قوم پرستی جیسی پروگرام پارٹی کا ہددف ٹارگٹ مقصد ہوتے ہین نظریہ اخلاقی وژن اور ایئیڈئل الفاط ہوتے ہین نظریہ مین صیع اور غلط اقدار کا سیٹ ہوتا ہے اور یہ تصور پیدا کرتے ہین کہ ہمین کونسی جہد کرنی چاہے کیا صحیح کیا غلط جو غلط ہے اسے کسے روکا جاے اسکے خلاف جہد کیا جاے اسکے خلاف لڑا جاے...
مجھے قلم کی طاقت پر کبھی بھی شک نہیں رہا ہے لیکن میں اپنے سماج کو لیکر ہمیشہ سے ایک غلط رائے رکھتا تھا کہ اس نیم قبائلی معاشرے میں جہاں اکثریت اپنے نام تک لکھنے سے عاجز ہوتے ہیں وہاں اثر الفاظ سے زیادہ بندوق کی گرج رکھتی ہے ، اب بلوچ سیاست میں وہ مچی ہلچل دیکھتا ہوں جس کی اشد ضرورت تھی تو مجھے زیب قرطاس ہر لفظ اپنے اہمیت کا بین کرتا نظر آتا ہے ، ابتداء سے ہمارے اندر جو غلط رجحانات پرورش پارہے تھے انکا علاج وقت کو سمجھا گیا ، یہی سوچا...
اختر مینگل نے غوث بخش بزنجو کو بابائے بلوچستان نہیں بابائے سوداگر کہا۔
نواب خیر بخش مری کے ساتھیوں اور میر ہزار خان رامکانی کے ساتھیوں کے درمیان افغانستان ہلمند کیمپ میں جھڑپ ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
نواب خیر بخش مری اور ساتھیوں کی افغانستان سے آمد پرشانداراستقبال ۔میں انقلاب اپنے ساتھ نہیں لایا انقلاب کے اپنے ضروریات ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔
میر ہزار خان کا پریس کانفرنس نواب خیربخش مری کی مخالفت اور سرکار کی حمایت۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
قوم پرست حلقوں کا شیر محمد مری کو کنارے اور میرہزار کو سینے سے لگانا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر بھی شیر محمد مری کا اپنے قول و فعل پر قائم رہنا اور نواب خیربخش مری...
ہر سماج صحیح اور غلط کا تعین اپنے مخصوص قوانین ، نظام ، روایات اور اقدار کے مطابق کرتا ہے ، انہی کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی بھی عمل کے صحیح یا غلط کافیصلہ ہوتا ہے لیکن جب بات انقلابی سیاست کی آجائے تو یہ وہ عمل ہے جو ان موجود روایات ، قوانین اور نظام کو ختم کرکے معاشرے کی تشکیل نو کا بِیڑہ اٹھاتا ہے اس لئے وہ کسی بھی عمل کے جانچ کے ان روایتی پیمانوں سے آزاد ہوتا ہے اور یہی آزادی ہی وہ فیصلہ کن نقطہ ہے جہاں ایک انقلابی اور انقلاب کے معیار...
قومی موقف اور سیاسی سمت کو لے کر حقیقی قوم پرست قیادت کے بیچ جو اختلافات پہلے بظاہر معمولی اور شخصی نوعیت کے لگ رہے تھے اب اپنی حقیقی رخ اور منطقی انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔دوستوں کی طرف سے قوم کو اصل مسائل سے آگاہ اور انہیں اعتماد میں لینے کی شروع ہی سے ایک شعوری کوشش کی مگر اصل اور بنیادی نوعیت کے وہ مسائل جو اختلافات اورتضادات کی بنیادی وجہ تھے ان کی بابت قوم کو آگاہ کرنے میں شاید دوست اس حد تک کامیابی نہ ہوئی جس کی ان سے توقع کی جارہی تھی...