پنجشنبه, جنوري 30, 2025

آرٹیکلز

تازہ ترین

جناب! آہستہ آہستہ حضور! آہستہ آہستہ

جناب! آہستہ آہستہ  حضور! آہستہ آہستہ تحریر: نودبندگ بلوچ آج کل ہمارے نابغہ رہبران ہوں یا بے لوث و متحرک کارکنان یا پھر کہنہ مشق دانشوران سب کے حواس پر تنقید ایک آسیب کی طرح ایسے سوار ہوگئی ہے کہ لگتا ہے سب نومیت کے عالم میں ہیں اور سالوں سے جو خوف ، خواہش یا لالچ بناوٹ کے دبیز چادروں میں انہوں نے چھپایا ہوا تھا وہ غیر ارادی طور پر بس ان کے عمل یا زبان سے ادا ہوتا جارہا ہے اور اس ادائیگی و اظہار پر وہ قدرت ہی کھو چکے ہیں۔ سالوں سے ہم اپنے خودی سے...

مسجد کی لکڑی نا جلانے کا نا رکھنے کا ۔تحریر۔ نود بندگ بلوچ

مسئلے کو سمجھنا اور مسئلے کو سمجھ کر مقصد کا تعین ایک بات ، اس مقصد کے حصول کیلئے ہم فکروں کی تشکیل ایک الگ بات ، لیکن یہ تمام عوامل شعوری ہیں یعنی یہ وجود تو رکھتے ہیں بس انکا سمجھنا ضروری ہوتا ہے انہیں جاننے کی دیر ہوتی ہے ، انکا وجود ہمارے ادراک کا محتاج نہیں ہوتا۔ یہ سب دریافت ہیں ایجاد نہیں لیکن اصل بات وہاں آتی ہے جب مسئلہ کو سمجھنے ، مقصد کا تعین کرنے اور ہم فکروں کی تشکیل کے بعد آپ میں اور مقصد کے حصول میں جو فاصلہ بچ جاتا...

آزادی کی شاہراہ پر مختصر سفر۔۔۔۔ کچھ تضاد میرے سامنے ;تحریر: بشیر زیب بلوچ

دوران انقلاب اور متحرک جدوجہد ہمیشہ سے تضادات کا موجب بنتے ہیں تضادات سیاست کا لازمی جز ہوتے ہیں مگر تضادات کا حل ہمیشہ سے ذہانت میں ہوتا ہے یہ دنیا کی مستند تاریخ رہی ہے اور میرا ایمان ہے کہ بلوچ تاریخ بھی اسکی گواہی دے گا نظریہ آزادی پر متفق اور عمل پیرا قوتوں میں بھی مختلف رویے مزاج فطری بات ہے کہیں پہ یہ ظاہر اور کہیں پہ پوشیدہ ضرور ہوتے ہیں۔ لیکن جب جدوجہد قدم بہ قدم آگے بڑھتی ہے اورردعمل میں دشمن کی جبر و بربریت میں اضافہ اور سازشیں بڑھ جاتی ہیں تو...

آزادی رائے ۔۔ تحریر، عمران بلوچ

مشہور فرانسیسی مفکر والٹیر کا کہنا ہے کہ "آپ جو کہہ رہے ہیں میں اس سے قطعی متفق نہیں لیکن آپ کے کہنے کے حق کیلئے میں اپنی جان بھی قربان کر سکتا ہوں" اس سے بہترین مثال کہی نہیں ملتی کہ کسی کی آزادی رائے کو مہذب دنیا میں کس نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ اب یہاں یہ بھی کہنا مناسب ہو گا اس کی بھی کچھ حد و حدود ہوتے ہیں ۔ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ ا یک صاحب سڑک پہ جا رہے تھے اور اپنی چھڑی کو چاروں طرف زور زور سے...

بلوچ تحریک کا عروج و زوال …شبیر بلوچ

قومیں عروج و زوال سے گذرتے ہیں ، زندہ قومیں اپنے زوال کے اسباب جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور جن غلطیوں کی وجہ سے وہ زوا ل کاشکار ہوئے، انہیں دہرانے کے بجائے ان سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں ، بقولِ ابن خلدون ’’عروج و زوال تمام اقوام پر آتے ہیں‘‘ تاریخ ہمیں عروج و زوال کے وجوہات بھی بتاتی ہے ۔ ہر عروج کے بعد زوال آتا ہے ، دوران عروج جب قوموں پر حکمرانی کرنے والے حاکم کی قانون اصولوں کے دائرے سے نکلتے ہوئے ، غیر منصفانہ فیصلے، سفاکی ، درندگی، طرفداری، عیش و...