تاریخ شاہد ہے کہ ہر قومی تحریک کی کامیابی کا انحصار اس کے نظریاتی استقلال اور فکری یکجہتی پر ہوتا ہے، نہ کہ وقتی مصلحتوں اور عارضی سہولتوں پر۔ قومی آزادی ایک ایسا اصول ہے جو کسی وقتی مصلحت یا سیاسی چالاکی کا محتاج نہیں ہوتا، بلکہ اس کا تقاضا یہ ہے کہ ایک واضح اور مستحکم راہ اختیار کی جائے۔ اگر ہم ایک ایک کر کے وہ بنیادی نکات ترک کر دیں جو ہماری تحریک کی اصل روح ہیں
یعنی آزادی کا غیر مشروط مطالبہ، ایک متفقہ روڈ میپ، متحدہ بلوچستان کا نظریہ، جامع سیاسی قیادت، واحد حکمت عملی،...
پاکستان کے سیاسی و سماجی نظام میں "قوم" کی تعریف نہایت مبہم اور غیر واضح ہے۔ پشتون، بلوچ، سندھی، پنجابی یہ تمام اقوام اپنے اندر منفرد تاریخی، ثقافتی اور نسلی شناختیں رکھتی ہیں، جو انہیں ایک یکساں قوم کے طور پر پیش کرنے کی سائنسی بنیاد سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ ہر ایک قوم کی اپنی مخصوص سرزمین اور اس پر قائم تاریخی حاکمیت ہے جسے تسلیم کرنا ضروری ہے۔ اگر اندرونی سماجی نابرابری یا دیگر مسائل پیدا ہوتے ہیں، تو ہر قوم اپنی شناخت اور روایات کے مطابق خود ان کا ادراک کر کے اصلاح کا عمل شروع کر...
مقبوضہ بلوچستان میں فوجی جاریت کے لیے پاکستانی فوج اور اس کا پالتو اسمبلی متفق ہے کہ بلوچستان میں فوجی جاریت کے ذریعے مکمل خاتمہ کریں مگر پنجابی دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کریں کہ ہارڈ اسٹیٹ دنیا میں جہاں کئی نافذ ہوا ہے وہاں آزادی کی تحریکیں کامیاب اور جمہوری نظام نافذ ہوا ہے ، بلوچ قوم کی آزادی کی تحریک قربانیوں کا مجموعہ ہے اور اس کو کوئی بھی شکست نہیں دے سکتا بہرحال تاریخ میں کسی بھی ملک میں ہارڈ اسٹیٹ کو نافذ کیا گیا ان کو منہ کی کھانی پڑھ گئی ہے ، ویسے بھی...
کیا ہم نے کبھی خود سے یہ سوال کیا ہے کہ ہم جس نظریے، جماعت، یا جدوجہد سے وابستہ ہیں، وہ واقعی قومی تحریک کے مفاد میں ہے، یا ہم محض گروہی سیاست کے اسیر ہیں؟
بلوچ قومی تحریک کی تاریخ میں ایک بڑا مسئلہ یہ رہا ہے کہ قومی مفاد کے بجائے جماعتی اور گروہی وابستگی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ ہمارے نظریاتی ساتھی اکثر "نظریات" کا نعرہ بلند کرتے ہیں، لیکن کیا ہم نے کبھی خود سے یہ سوال کیا ہے کہ ہماری وابستگی واقعی کسی نظریے پر ہے یا محض یاری...