ہمگام کالم تحریر :
ایران اپنی تاریخ میں معاشی ، سفارتی، فوجی اور سیاسی طور پر تباہ کن ڈگر پر پہنچ چکا ہے ۔ ایران میں بلوچ، کرد، احوازی عرب اور آزربائیجانی قومیت کے لوگ کئی عرصے سے اپنے قومی حقوق کے لئے ملا رجیم سے برسرپیکار ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب آپ کا دشمن (ایران) ہر میدان میں تباہی کا شکار ہو اور وہاں پر لڑ رہے ہو دیگر قوموں کے لئے بلوچستان کی آزادی کی تحریک ان کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں کیونکہ جس طرح آپ اپنے دشمن کے دشمنوں کا کھوج لگا کر ان کو ساتھ ملا کر ظالم حاکم اور جابر قبضہ گیر سے گلو خلاصی کے لئے کوششیں کرتے ہے اسی طرح کرد، احوازی عرب اور آزربائیجانی قومیت کے لوگ بھی بلوچوں کو اپنے ہمدرد اور ساتھی جان کر آپ کے اس تحریک کا ہرطرح سے ساتھ دے رہے ہیں ۔ کیونکہ سب کی مقصد ایران سے اپنی غصب شدہ سرزمین کو چھڑانا ہے۔
اگر ایران میں بلوچوں کی طرف سے آزاد بلوچستان کا نعرہ قبل از وقت ہے تو عقل سے عاری لوگ ہی ایسے ہی باتیں کرسکتے ہیں ۔تو پھر ان کے اس بے بنیاد منطق کے مطابق پاکستان سے آزادی کا نعرہ بھی قبل از وقت ہے کیونکہ پاکستان ایران سے زیادہ طاقتور ایٹمی قوت ہے یہاں تو دوسری قومیتوں کے لوگ پاکستان سے اب تک نہیں لڑرہے تھے ۔ بنگالیوں کے بعد صرف بلوچ ہی ہے جس نے اب تک پانچ جنگیں لڑی ہیں۔ سندھی اور پشتون قوم کی پاکستان سے آزادی کا مطالبہ نہیں دیکھا گیا یے تو کیا کسی بلوچ نے یہ کہا کہ جی پاکستان کے خلاف جنگ لڑنا قبل از وقت ہے کیونکہ سندھی اور پشتون تو پنجاب کے ساتھ ہیں بلوچ اکیلا کیسے پاکستان سے لڑ سکتی ہے؟
یہاں بات یہ نہیں کہ آپ کا دشمن کتنا طاقتور ہے کتنی فوج رکھتا یے۔ معاشی طور پر کتنی مضبوط ہے۔ یہی باتیں تو ایران اور پاکستان بھی کرتے ہیں کہ وہ ایٹمی طاقتیں اور معاشی اعتبار سے تگڑا ہے۔ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ ان کی خفیہ ایجنسی دنیا کی پہلے نمبر پر ہے۔ ایران بھی تیل کی بہتات کی وجہ سے پورے خطے میں دہشت گرد نیٹ ورکس کو فنڈنگ کررہی ہے تو کیا بلوچ چھپ کرکے اپنی مقبوضہ سرزمین سے لاتعلق رہے؟
دشمن کے خلاف جنگ نہ لڑ کر کیا ہم دشمن کو مزید طاقتور بننے کا موقع نہیں دے رہے؟ پاکستان سے اگر بلوچ قوم ستر کے زمانے میں بنگالیوں کے ساتھ مل کر لڑتی تو آج پاکستان ایٹمی طاقت حاصل نہیں کرسکتا ، اور اسی کی دہائی میں بلوچ مل کر پاکستان و ایران کے خلاف اپنی آزادی کی جنگ لڑتے تو شائد پاکستان سی پیک کے نام پر بلوچوں کی نسل کشی کا ذریعہ نہ ڈھونڈتا ۔ آج بھی اگر بلوچ پاکستان اور ایران کی قبضہ گیریت پر خاموش رہ کر تتر بتر ہوکر الگ الگ جنگ لڑینگے تو ایران اور پاکستان کو ہمیں دبانے اور ہماری قومی طاقت کو منتشر کرنے کا سنہری موقع ملےگی۔ پاکستان اور ایران کے خفیہ ادارے ہمیشہ اس تاک میں بیٹھے ہوئے ہیں کہ بلوچوں کی طاقت کو یکجا ہونے سے کیسے روکنا ہے ؟ کیونکہ مذکورہ دونوں قابض ریاستوں کے قریبی تعلقات کی تاریخ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو وہ ہمیشہ بلوچ تحریک کو سر نہ اٹھائے دینے کے لئے فوجی، سیاسی، اور معاشی باہمی تعاون کرتے رہےہیں۔ موجودہ دور میں ان کی بلوچ کش عزائم میں دیگر چند ایک عالمی طاقتیں بھی شامل ہوگئی ہیں۔ چین، اور روس جو آج سے پہلے پردے کے پچھے طالبان ، حقانی نیٹ ورک اور دیگر مذہبی جنونی شدت پسندوں کو پیسہ، اسلحہ اور جنگی تربیت دے کر افغانستان اور کشمیر میں بھیجتے رہے ہیں اب ایران اورپاکستان کی مشکلات کو حل کرنے کے لئے وہ خود اسکرین کے سامنے نمودار ہو گئے ہیں تاکہ ایران اور پاکستان جو دنیا میں بدنام ترین ریاستوں کے طور پرجانے جاتے ہیں ان سے دنیا کی نظریں ہٹ جائے۔ چین اور روس اقوام متحدہ کے مستقل اراکین ہیں جو اقوام متحدہ میں کسی بھی قرار داد کو ویٹو کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ ہندوستان کی جانب سے مسعود اظہر کی اقوام متحدہ میں قرار داد کے خلاف چین نے ویٹو کا پاور استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے اس مذہبی اثاثے کو عالمی ضرب سے بچایا تھا ۔ ان طاقتور ممالک کی طالبان کے کفیل بن کر سامنے آنے سے گھتی سلجھ گئی ہے کہ اب بلوچ قومی قیادت کے لئے فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ چین جوبرصغیر میں سمندر ، فضا اور خشکی کا بے تاج بادشاہ بننے کا خواب دیکھ رہی ہے خطے میں سپر پاور کی اس پرخار کرسی پر بیٹھنا اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ چین پاکستان کو اپنے دوست ملک اور ایک دوسرے کی دوستی کو K2 سے بلند اور ساگر سے گہرا ہونے کا دعوہ کرتے ہیںٰ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ بات سچ ہے؟ حالیہ کچھ عرصے سے چین کے صوبے سنکیانک میں چینی حکام کی طرف سے اسلام مخالف بڑے مہم کا آغاز ہوگیا ہے جہاں بین الاقوامی ماہرین کے مطابق دس لاکھ کے قریب اوغر مسلمانوں کو خاندان سمیت پکڑ کر حراستی کیمپوں میں منتقل کیا جاچکا ہے۔
پاکستانی تاجروں کی تازہ ترین داستانیں بی بی سی اور دیگر عالمی ذرائع ابلاغ میں آنا شروع ہوگئی ہیں جہاں کمیونسٹ چینی حکومت مسلمانوں کے لئے اسلام کو حرام قرار دے چکی ہے۔ چین کی جانب سے اسلام کے بنیادی اراکین پر مکمل پابندی عاید کیا جانا اور دوسری طرف چین کا پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات دو متضاد عمل ہیں ۔ چین نا پاکستان کا دوست تھا نہ رہے گی چین کا جنوبی ایشیا میں بلوچ سمندر بلوچ ساحل وسائل اور خطے کی تقدیر کا فیصلہ کرنے والا بلوچستان کا اہم ترین جغرافیائی اہمیت چین اور پاکستان کو لازم و ملزوم بناچکے ہیں۔ چین کا اقوام متحدہ میں مسعود اظہر کے خلاف قرارداد کی مخالفت کرنا اور دوسری جانب اپنے صوبے سنکیانک میں مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کاروائیوں سے یہ بات اظہرمن الشمس کی طرح عیاں ہوگئی ہے کہ چین کا جنوبی ایشیا خاص کر بلوچستان میں موجودگی کسی بھی معاشی اور ترقیاتی نیت سے نہیں بلکہ خالصتاً فوجی اور خطےمیں بالادستی حاصل کرنے کے لئے کی جارہی ہے۔
اب بلوچ قیادت پر منحصر ہے کہ وہ چین ، ایران ، پاکستان اور روس کی اس بلوچ کش پالیسیوں کو زائل کرنے اور بلوچ شناخت اور قومی مفادات کی تحفظ کے لئے کیا اقدامات کریگی ؟ یقیناً بلوچ اکیلے اس گریٹ گیم کی متاثرین میں سے نہیں ہے ، یہاں امریکہ، ہندوستان، اسرائیل، خلیجی ممالک اور افغانستان کے مفادات کو بھی خطرہ ہے۔ کیونکہ پاکستان اور ایران جو اپنی وجود سے لیکر اب تک دہشت گردوں اور شدت پسندوں کی پرورش گاہ کے طور پر جانے جاتے ہیں ان کی طاقتور ہونا اس خطے کو تباہی کی جانب دھکیل دے گی۔
بلوچوں کو احساس کمتری کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ بلا شبہ اس خطے کے ممالک کے لئے لائف لائن کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ پاکستان بننے کے ستر سال تک عالمی طاقتوں نے بلوچوں کو نظر انداز کیا بلوچوں کی بجائے انہوں نے پاکستان کی مدد کی لیکن نتیجہ خطے میں شدت پسندی اور دہشت گردوں کی بڑھتی ہوئی کاروائیوں پر منتج ہوئی ۔ یہ حقیقت ہے کہ بلوچ اس وقت کمزور حالت میں ہے لیکن ہماری کمزوری کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنی سرزمین و شناخت پر یہ کہہ کر سمجھوتہ کرلیں کہ ہم کمزور ہیں۔ میرے نظر میں قوموں کی کمزوری یا طاقت کو جانچنے کے لئے پیسے ہتھیار اور افرادی قوت کو کسوٹی نہ بنایا جائے تو بہترہے کیونکہ اصل طاقت اور کمزوری انسان کی سوچ ہے۔ قومی سوچ اگر آزادی کےلئے آخری سانس تک کھڑا رہے تو وہ طاقتور قوم کا فرد کہلائے گا اور اگر بے شمار طاقت پیسہ اور ہتھیار میسر ہو تو بھی اگر سوچ شعور اور قومی نجات کا پیمانہ کمزور ہو تو وہ قوم کبھی بھی منزل تک نہیں پہنچ سکتا ۔
ہمیں سرجوڑ کر بیھٹنا چاہیے کہ عالمی طاقتوں کی اس پنجہ آزمائی میں بلوچ اپنی قومی شناخت کو محفوظ رکھنے میں کس حد تک تیار ہے؟ آج اگر مشرقی بلوچستان (پاکستان کے زیر تلسط بلوچستان) اور مغربی بلوچستان (ایرانی زیر قبضہ بلوچستان) کےبلوچ ایک دوسرے سے لاتعلق رہے تو پھر کون ہماری سرزمین کی آزادی کے لئےلڑیگی؟ کوئی آسمانی طاقت آکر لڑے گی؟ ہم کہتےہیں گولڈ سمتھ سرحد کے آر پار ہمارے رشتے داریاں ہیں ہماری قوم کے لوگ مصنوعی سرحد کے دونوں جانب بستے ہیں تو پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہم نے اس مصنوعی سرحد کے دونوں جانب بسنے والے اپنے بلوچوں کو جوڑنے کے لئے انہیں مل کر اپنا ملک دوبارہ حاصل کرنے کےلئے اب تک کیا ، کیا ہے؟ دیوار برلن گر سکتی ہے۔ جرمن ایک ہوسکتے ہیں تو پھر گولڈ سمتھ لائن کے دونوں جانب کے بلوچ آپس میں مل کر ایرانی اور پاکستانی قبضہ گیریت کے خلاف کیوں ایک نہیں ہوسکتے؟ بلوچ قوم کے ہرمرد و زن کو اس بات پر سنجیدگی سے سوچنا چاہے کہ وہ کونسی طاقتیں ہیں جو ہمیں ایک ہونے نہیں دے رہے؟ گجر اور پنجابی کی کھینچی گئی اس سرحدی باڑ کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے بلوچ عوام کو اپنی آنکھیں کان اور دماغ کھلے رکھنے کی ضرورت ہیں۔ کون سی بلوچ لیڈر ہے جو گولڈ سمتھ لائن کے دونوں جانب بلوچوں کو یکجا کرنے کی کوشش کررہی ہے؟ ہمیں دل و جان سے ایسی پالیسیوں کی کھل کر حمایت اور ساتھ دینا چاہیے جو بلوچ قومی مفادات کے حصول میں ہماری مدد کرے۔
اقوام کی تحریکوں میں لیڈر کا کردار صحیح سمت اور دیرپا و موثر پالیسیاں دینا ہوتا ہے ان پالیسیوں پر عمل کرنا اور ان کو منطقی انجام تک پہنچانا قومی تحریک سے جڑے پارٹیوں اور عام عوام کا کام ہے۔ اگر بلوچ پارٹیوں اور لیڈروں کے پالیسیوں پر نظر دوڑائیں تو بلوچ قوم دوست رہنما سنگت حیربیارمری بلوچ قومی مفادات کی تحفظ کرتے ہوئے ملینگے ، آپ پارٹی سیاست سے ہٹ کر غیرمعمولی کردار نبھاتے رہے ہیں۔ آپ کی قوم دوست پالیسیاں گولڈ سمتھ لائن کے دونوں جانب تیزی سے اثر پزیرہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ امریکہ کی ایران کے ایٹمی معاہدے کے نکلنے سے لیکر ایران پر عالمی پابندیوں تک آپ نے کھل کربلوچ قوم کی نمائندگی کی۔ ایران سے اپنے وطن کی آزادی کے لئے برسرپیکار عرب، آزربائیجانی اور کرد اقوام کی حمایت میں بھی آپ کسی بھی بلوچ رہنما سے منفرد مقام پاچکے ہیں۔ کل تک افغانستان کی حکومت اور عوام ایران سے متعلق اپنی ٹھوس پالیسی دینے سے گریزاں تھے آج افغانستان کے عوام اور سیکورٹی حکام کھل کر ایران کی افغانستان اور پورے خطے میں دہشت گردانہ عزائم پر بات کررہے ہیں۔ افغانستان نے اعلیٰ ترین سطح پر ایران کی جانب سے آبی جنگ کے دھمکیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے جہاں ایران افغان سرزمین پر ڈیم بنانے پر اعتراض کرچکا ہے۔ افغانستان کے اندر ایران کے لئے اب کوئی نرم گوشہ نہیں رہا۔ افغانستان کے عوام پاکستان اور ایران کو ایک ہی کشتی کے سواری تصور کرتے ہیں۔ مبصرین کے مطابق افغانستان ایران کی محدود جنگ کے امکانات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ حالیہ ادوار میں افغانستان کے صوبے فراہ میں تیس کے قریب افغان پولیس اہلکاروں کی شہادت میں ایران کے ملوث ہونے کی بات کہی جارہی ہے۔ ایران اور پاکستان مل کر طالبان کو فوجی اور معاشی امدادکے علاوہ تربیتی مراکز اور رہنے کے لئے معفوظ جگہ فراہم کررہے ہیں افغانستان کے عوام اور سیکورٹی حکام ایران و پاکستان کی اس دہشت گردی کو اپنے ملک کے خلاف غیر اعلانیہ جنگ سمجھتے ہیں۔ ایران اور پاکستان کی افغانستان، بلوچستان، ہندوستان اور امریکہ کے خلاف ناپاک عزائم بلوچ دوست ممالک کو قریب تر لانے میں مدد کررہی ہے۔ بلوچ رہنماوں اور عوام کو چاہیے کہ حیربیار مری کی موثر ناقابل شکست پالیسز کی کھل کر ساتھ دینا چائیے نہ کہ ایران کی وکالت کرتے ہوئے بلوچوں کی طاقت کو تقسیم کرنے کی نادانستہ کوشش کرکے ہماری قوم کو گجر اور پنجابی کی ابدی غلامی کا درس دے۔
ایران کے خلاف بلوچ تحریک آزادی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پہلے بھی بلوچ ایران سے جنگ آزادی لڑ چکے ہیں ۔ مشرقی بلوچ تحریک سے کافی موثر لڑائی مغربی بلوچوں نے لڑی تھی جو بد قسمتی سے ہماری ایک دوسرے سے بے رخی اور ایک دوسرے کا ساتھ نہ دینے کی وجہ سے ثمر آور ثابت نہ ہوسکے اب بھی پاکستان کی بہ نسبت ایران میں بلوچ تحریک کو دوسری قومیتوں کی بھرپور حمایت اور سیاسی اخلاقی اور سفارتی مدد حاصل ہے ۔ اس سنہرے موقع سے فائدہ اٹھانے کی بجائے کچھ لوگ شخصی و گروہی مفاد کیلئے ایران کے لئے نرم گوشہ رکھ کر بلوچوں کی قومی طاقت کو یکجا کرنے کی بجائے بلوچ کی قومی طاقت کو منتشر کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ایسے عقل کے پیدل انسانوں کےلئے ایک ہی مشورہ ہے کہ ذاتی اور گروہی مفادات کی حصول کے لئے کوئی دوسرے ذرائع تلاش کرلی جائے بلوچ قومی طاقت کو منتشر کرنےاور بلوچوں کو گجر اور پنجابی کی غلامی کے خلاف چھپ رہنے کی غلامانہ تلقین نہ کی جائے۔