تل ابیب( ہمگام نیوز ) اسرائیل میں نیتن یاھو کی حکومت کے نام نہاد عدالتی اصلاحات منصوبے کے خلاف احتجاج پھر زور پکڑنے لگا۔ اس منصوبے کے خلاف لگاتار 27 ویں ہفتے بھی احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ ہفتے کے روز معمول سے زیادہ لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔
مرکزی مظاہرہ تل ابیب میں کیا گیا۔ دیگر شہروں میں بھی مظاہرے کیے گئے۔ نتین یاھو کی حکومت کی متنازع عدالتی اصلاحات منظور کرنا چاہتی ہے۔ اس ہفتے مظاہرین کی تعداد حالیہ ہفتوں سے کی شرح سے بڑھ گئی ہے۔ مظاہروں کے منتظمین نے کہا کہ تل ابیب میں ایک لاکھ 80 ہزار افراد سڑکوں پر نکل آئے ۔ پولیس نے مظاہرین کی تعداد کے متعلق وضاحت جاری نہیں کی۔
اصلاحات کے مخالفین جنوری سے ہر ہفتے کی شام کو مظاہرے کر رہے ہیں۔ یہ اسرائیل کی تاریخ کی سب سے بڑی احتجاجی تحریکوں میں سے ایک تحریک بن گئی ہے۔
اسرائیلی میڈیا نے تل ابیب میں مظاہرین کی تعداد کا تخمینہ ایک لاکھ 50 ہزار لگایا ہے۔ یہ تعداد بھی گزشتہ ہفتوں کی تعداد سے زیادہ ہے۔
مارچ کے آخر میں حکومت نے اصلاحات پر غور کو کرنے کا اعلان کیا تھا۔ حزب اختلاف کے ساتھ مذاکرات کی ناکام کوششوں کے بعد حکومت عدالتی اصلاحاتی بل کو پارلیمنٹ میں منظور کرانے کی کوششیں دوبارہ شروع کر رہی ہے۔ پیر کے روز بل کی پہلی خواندگی کی گئی۔ عدلیہ اصلاحات کے اس بل کا مقصد عدلیہ کے حکومتی فیصلوں کی “معقولیت” کی جانچ کرنے کے امکان کو ختم کرنا ہے۔
خاص طور پر عدالت کے وزراء کی تقرری پر اثرانداز ہونے کو ختم کیا جارہا ہے۔ جنوری میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو حکومت میں سیکنڈ ان کمانڈ آریہ دیری کو برطرف کرنے پر مجبور کردیا تھا۔
احتجاجی تحریک کے منتظمین نے اگلے منگل کو قومی موبلائزیشن کا دن قرار دیا ہے۔ احتجاجی رہنماؤں نے کہا کہ وہ مظاہروں کو تیز کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ ہفتہ کو تل ابیب میں مظاہرے میں حصہ لینے والے 51 سالہ سیگل پیلیڈ لیویتھن نے کہا ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہے کیونکہ ہمیں اپنی جمہوریت کا دفاع کرنا ہے۔
عدالتی ترامیم متعارف کرانے کی حکومت کی کوشش نے اسرائیل میں جمہوری نظام کے لیے خدشات پیدا کر دیے اور معیشت کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس بحران کے آغاز کے بعد سے شیکل کی قدر پانچ فیصد سے زیادہ گر گئی۔
نیتن یاھو کے خلاف طویل عرصے سے بدعنوانی کا مقدمہ چل رہا ہے۔ مخالفین کا یہ بھی کہنا ہے کہ حالیہ عدالتی اصلاحات سے نیتن یاھو کو بھی اپنے مقدمہ میں آسانی مل سکتی ہے۔ دوسری طرف نیتن یاہو یہ کہہ کر مغربی اتحادیوں اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی بے چینی کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مجوزہ تبدیلیاں اقتدار کی شاخوں کو بہتر طریقے سے الگ کر دیں گی۔