کابل (ہمگام نیوز)مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹ کے مطابق افغانستان کے مرکزی بینک کے تقریباً ساڑھے نو ارب ڈالر کے ذخائر، جن میں سے زیادہ تر امریکہ میں موجود ہیں، اشرف غنی حکومت کے خاتمے کے بعد منجمد کر دیے گئے تھے۔افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ نے دنیا کو خبردار کیا کہ یہ ملک ’انسانی تباہی کے دہانے پر ہے‘ اور اس کی گرتی ہوئی معیشت انتہا پسندی کے خطرے میں اضافہ کر سکتی ہے۔
ڈیبرا لائنز نے بدھ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا کہ اقوام متحدہ کے تخمینے کے مطابق افغانستان کی تین کروڑ 80 لاکھ آبادی میں سے 60 فیصد کو خوراک کی ہنگامی صورت حال میں بھوک کی سطح جتنے بحران کا سامنا ہے اور اس بحران کا موسم سرما میں مزید بگڑنے کا امکان ہے۔اقوام متحدہ کی نمائندہ نے مزید بتایا کہ افغانستان کی شرح نمو یا جی ڈی پی میں 40 فیصد کمی کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
تاہم انہوں نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ افغانستان میں اس انسانی تباہی کو روکا جا سکتا ہے اور اس بحران کی بنیادی وجہ طالبان پر مالی پابندیاں ہیں جنہوں نے رواں سال اگست میں ملک پر کنٹرول حاصل کیا تھا۔
افغانستان کے مرکزی بینک کے تقریباً ساڑھے نو ارب ڈالر کے ذخائر، جن میں سے زیادہ تر امریکہ میں موجود ہیں، اشرف غنی حکومت کے خاتمے کے بعد منجمد کر دیے گئے تھے۔
اس کے علاوہ امداد پر انحصار کرنے والی افغانستان کی معیشت کو 23 اگست تک بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے تقریبا 45 کروڑ ڈالر ملنا تھے لیکن آئی ایم ایف نے طالبان حکومت کے بارے میں ’غیر واضح صورت حال‘ کے پیش نظر اس رقم کی فراہمی روک دی ہے۔ڈیبرا لائنز کا کہنا تھا کہ ’افغانستان پر لگنے والی پابندیوں نے ملک کے بینکنگ سیکٹر کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے جس سے اس کی معیشت کے ہر پہلو پر اثر پڑتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ بینکنگ سیکٹر کے مفلوج ہونے سے ملک کا مالیاتی نظام مزید غیر منظم ہو جائے گا جس کا احتساب کرنا مزید مشکل ہو گا اور یہ معاشی نظام کو غیر رسمی کرنسی کے تبادلے کی جانب دھکیل دے گا۔
’یہ صورت حال نہ صرف دہشت گردی بلکہ سمگلنگ اور منشیات کے بہاؤ میں مدد فراہم کر سکتی ہے جو پہلے افغانستان کو اور پھر پورے خطے کو متاثر کرے گا۔‘
ڈیبرا لائنز کا مزید کہنا تھا کہ اس صورت حال کی ایک اور ’بڑی منفی پیش رفت‘ طالبان کی جانب سے داعش کے پھیلاؤ کو روکنے میں ناکامی ہے جس کی موجودگی اب تقریباً تمام صوبوں میں دکھائی دے رہی ہے اور جو تیزی سے سرگرم بھی ہے۔انہوں نے کہا کہ داعش کی جانب سے اس سال 334 حملے کیے گئے جن کی تعداد گذشتہ سال محض 60 تھی۔
لائنز نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ افغان عوام کو مالی مدد فراہم کرنے کے طریقے تلاش کریں جن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ عوام کو لاوارث اور فراموش کر دیا گیا ہے اور ان کو اس جرم کی سزا دی جا رہی ہے جو انہوں نے کیا ہی نہیں۔ ’انہیں چھوڑ دینا ایک تاریخی غلطی ہو گی۔‘لائنز نے کہا: ’ہمیں اگلے تین یا چار ماہ میں موسم سرما کے دوران کمزور افغان شہریوں کی مدد پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’بین الاقوامی برادری کو فوری طور پر سرکاری ہسپتالوں میں ہیلتھ ورکرز، خوراک کے تحفظ کے پروگرامز کے عملے اور اساتذہ کو مالی مدد فراہم کرنے کا راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے لیکن ساتھ ساتھ لڑکیوں کی تعلیم کے حق پر بھی زور دیا جائے۔‘
انہوں نے سلامتی کونسل کے ارکان کو یقین دلایا کہ اقوام متحدہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی کہ فنڈز طالبان کی طرف یا طالبان کی جانب سے منتقل نہ ہوں۔چین اور روس نے افغانستان کے اثاثوں بحال کرنے پر زور دیا لیکن امریکی نائب سفیر جیفری ڈی لارینٹس نے پابندیوں کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
امریکی نائب سفیر نے طالبان پر تنقید کی کہ وہ سلامتی کونسل اور بین الاقوامی برادری کی طرف سے افغانستان میں تنازع کے سیاسی تصفیے کے لیے پرامن طریقے سے کام کرنے کے مطالبات کو نظر انداز کر رہے ہیں اور اس کے بجائے میدان جنگ میں فتح کے لیے لڑ رہے ہیں۔انہوں نے کہا: ’اب ہم فتح کے خوفناک نتائج کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں لیکن افغان عوام کو طالبان کے فیصلوں کی قیمت ادا نہیں کرنی چاہیے۔‘
ڈی لارینٹس نے کہا کہ امریکہ افغانستان کے لیے انسانی امداد دینے والا سب سے بڑا ملک ہے جس نے 2021 میں 474 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی ہے اور امریکہ دوسرے ممالک پر زور دیتا ہے کہ وہ اپنی امداد میں اضافہ کریں۔ لائنز نے کہا کہ افغانستان میں گذشتہ 20 سال میں ہونے والی زیادہ تر ترقی کو کھونے سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ طالبان تنہائی سے بچیں اور دیگر افغان فریقوں، خطے اور عالمی برادری کے ساتھ پالیسی ڈائیلاگ کے ذریعے رابط قائم کریں۔
انہوں نے کہا کہ مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ’افغانستان اور پوری دنیا کے درمیان تعمیری تعلقات‘ قائم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کے ساتھ ایک روڈ میپ تیار کیا جائے۔لائنز نے کہا کہ وہ طالبان کے ساتھ دیگر مسائل کو اٹھاتی رہتی ہیں جن میں خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کی بحالی اور زیادہ جامع اور وسیع البنیاد حکومت کے قیام جیسے مطالبات شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کی کابینہ میں کوئی خاتون شامل نہیں۔ دارالحکومت اور صوبائی سطح پر تمام عہدوں پر پشتونوں اور صرف طالبان کو ہی فائز کیا گیا ہے۔طالبان کی حکومت کو تاحال کسی ملک یا اقوام متحدہ نے تسلیم نہیں کیا۔ افغانستان کی اقوام متحدہ کی نشست اب بھی اشرف غنی حکومت کے نمائندے غلام ایم اسحاق زئی کے پاس ہے۔
اسحاق زئی نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ افغانستان کو تاریخی بحران کا سامنا ہے۔انہوں نے کہا کہ ’لاکھوں افغان شہریوں کی زندگیوں کو ناکام معیشت، شدید غذائی بحران، سکیورٹی، بنیادی حقوق اور آزادی کی عدم موجودگی جیسے خطرات لاحق ہیں۔ اگر موجودہ رجحانات جاری رہے تو افغانستان دنیا میں سب سے زیادہ غربت کا شکار ہو جائے گا۔‘