یکشنبه, سپتمبر 29, 2024
Homeاداریئےاقلیت کش پاکستان اور بلوچ اعتدال پسندی

اقلیت کش پاکستان اور بلوچ اعتدال پسندی

ہمگام اداریہ
پاکستان کے علاقے لاہورر میں اتوار کے دن عیسائی برادری کے ہفتہ وار دعائیہ تقریبات کے وقت ہونے والے دھماکوں سے کم از کم 14 عیسائی جاں بحق اور 50 اور پچاس سے زائد زخمی ہوچکے ہیں ۔ دھماکے ایک دوسرے کے بالکل ساتھ میں واقع پروٹسٹنٹ اور کیتھولک چرچوں میں یوحنا آباد کے علاقے میں ہوا دھماکوں کی ذمہ داری تحریک طالبان نے قبول کی ہے ۔یاد رہے کہ پاکستان کے مختار کل صوبے پنجاب میں گذشتہ ایک طویل عرصے سے طالبان کو کھلی آزادی حاصل ہے اطلاعات کے مطابق پنجاب نے پنجابی طالبان کے سربراہ عصمت اللہ معاویہ کے ذریعے سے ان دہشت گرد گروہوں سے ایک معاہدہ کیا ہوا تھا جس کے تحت پاکستانی فوج کے بنائے گئے فرقہ وارانہ گروپ اور طالبان کو پنجاب میں نقل و حرکت اور پرچار کی کھلی آزادی ہوگی وہ پنجاب کے علاوہ کہیں بھی دہشتگردانہ کاروائیاں کرسکیں گے لیکن معاہدے کے تحت انہیں پنجاب میں کوئی دہشتگردانہ کاروائی نہیں کرنا تھا اسی لیئے عصمت اللہ معاویہ جیسا مطلوب طالبان کمانڈر بھی باآسانی پنجاب میں اپنے گھر آتا جاتا رہا ہے حتیٰ کے کھلم کھلا کچھ ماہ پہلے اپنے والد کے جنازے تک میں شریک ہوا ۔اس کے علاوہ لشکری جھنگوی یا اہل سنت والجماعت کے سربراہ بھی باقاعدہ طور پر حکومتی سیکیورٹی میں پنجاب میں جلسے جلوس کرتا آیا ہے یہ وہی تنظیم ہے جو ہزاروں شیعہ افراد کے قتل میں براہ راست ملوث رہا ہے ، اس آزادی کے بدلے وہ پنجاب میں حملوں سے اجتناب کرتے رہے ہیں لیکن حالیہ حملوں میں اب پاکستان کے اپنے فوجی اسٹبلشمنٹ کے رضا کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
لاہور کا یہ حملہ پاکستان میں اقلیتی برادری پر پہلا حملہ نہیں تھا ۔ پاکستان میں آباد 1.6 فیصد ہندو ، عیسائی ، احمدی ، یہودی وغیرہ ایک طویل عرصے سے پاکستان فوج کے بنائے گئے پراکسی دہشت گرد گروہوں کے دہشت گردانہ کاروائیوں کا شکار رہے ہیں ۔پچھلے سال پشاور میں چرچ پر خودکش حملہ ہو ، یا چندہ ماہ پہلے پنجاب میں توہین رسالت کے الزام میں دو عیسائی شوہر بیوی کو زندہ جلانا ہو ، پنجاب کے علاقے گوجرہ میں عیسائی کمیونٹی پر حملہ کرکے 8 ہلاک اور سو سے زائد گھر جلانا ہو یا آسیہ بی بی جیسے کئی بیگناہوں پر توہین رسالت کا الزام لگا کر انہیں پھانسی پر چڑھانا اقلیتوں پر حملہ پاکستان میں ایک رواج بن چکا ہے جس میں سب سے زیادہ پیش پیش وہ مذہبی شدت پسند عناصر رہے ہیں جن کو قائم ہی پاکستانی فوج نے کی تھی اور جنہیں وہ اپنا تزویراتی اثاثہ کہتا ہے ۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق صرف 2013-14 میں پاکستان سے مجبوراً 14000 عیسائی ہجرت کرکے دوسرے ممالک میں سیاسی پناہ لے چکے ہیں ۔ اسی طرح سکھ برادری بھی پاکستان میں ہرگز محفوظ نہیں رہا ہے پچھلے سال ہی جب سکھ برادری نے اپنے گردواروں پر بڑھتے ہوئے حملوں اور انہیں نذر آتش کرنے کے خلاف جب اسلام آباد میں احتجاج کرنے کیلئے جمع ہوئے تھے تو حکومت نے انکے مسائل پر توجہ دینے کے بجائے ان پر دھاوا بول دیا اور 15 کو گرفتار جبکہ 225 کے اوپر ایف آئی آر کاٹ دی ۔اسی طرح ہندو برادری بھی ان حملوں سے محفوظ نہیں ہے خاص طور پر گذشتہ کچھ عرصے سے اس وقت ہندو برادری پر بالخصوص سندھ میں حملوں میں شدت دیکھنے کو ملی ہے جب سے پنجابی فرقہ وارانہ تنظیم اہل سنت و الجماعت (لشکری جھنگوی ) کو ایک منصوبے کے تحت سندھ میں منظم کیا جارہا ہے۔ ایک طرف ہندو برادری کے لوگوں کو اغواء کرنا خاص طور پر جوان لڑکیوں کو اور انہیں زبردستی مسلمان بنا کر ان سے شادی کرنا تیز ہورہا ہے تو دوسری طرف ہندو مندروں کو جلانا بھی معمول بن چکا ہے ۔ گذشتہ سال اکیس نومبر کو ٹنڈو محمد خان کے مقام پر ہندو دیوتا ہنومان کے معروف مندر میں ان کے مجسمے کو سیاہ کردیا گیا اور وہاں مقدس کتابوں کو جلایا گیا۔ اسی طرح حیدرآباد میں ایک ہندو مندر کو جلایا گیا اور لا ڑکانہ میں ایک ہندو دھرم شالہ حال ہی میں نذر آتش کی گئی ۔ حال ہی میں پاکستان ہندو کونسل نے بھی اس بابت کہا ہے کہ پاکستان میں اس وقت 1400 کے قریب ہندو مندر شدید خطرے میں ہیں جنہیں تحفظ کی ضرورت ہے ، ان پے در پے واقعات کی وجہ سے ابتک ہزاروں کی تعداد میں ہندو بھارت ہجرت کرکے وہاں پناہ لیئے ہوئے ہیں ۔
جس طرح پاکستان کا بنیادی زبردستی ایک نام نہاد اسلامی نظریے کی اوپر رکھا گیا اسے فروغ دینے اور یہاں کے مظلوم قوموں پر قبضے کو جواز دینے کیلئے اسی نظریے کو شروع دن سے ہی فروغ دیا گیا اور فطری طور پر باقی مذاہب سے نفرت کو عام کیا گیا ۔ پاکستان کے غیر فطری قیام کے ساتھ ہی کراچی اور پنجاب میں ہندو اور سکھ برادری پر حملے شروع ہوگئے ہزاروں کو قتل کیا گیا اور لاکھوں کو ملک بدر کرکے انکے مال اور کاروبار پر قبضہ کیا گیا ، جس ملک کا قیام مذہبی و فرقہ وارانہ منافرت پر ہو ، جو قائم ہی بے گناہ اقلیتوں کے لاشوں پر ہوا ہو اس سے بہتری اور تحفظ کی امید شاید حقیقت پر مبنی نہیں ہوگی ۔
پاکستان کے جبری قبضے کا شکار بلوچستان جو تاریخی ، تہذیبی اور جغرافیائی حوالے سے کبھی پاکستان کا حصہ نہیں رہا ہے مذہبی رواداری میں بھی پاکستان سے یکسر مختلف ہے ۔ یہاں بلوچوں کی اکثریت سنی العقیدہ مسلمان ہیں لیکن اس خطے میں بلوچ واحد قوم ہے جس سے نا کبھی مذہبی اقلیتوں کو خطرہ رہا ہے اور نا ہی کبھی یہاں فرقہ واریت فروغ پائی ہے ۔ پاکستان کے غیر فطری قیام کے وقت جب ہندووں اور عیسائیوں کو ہزاروں کی تعداد میں شہید اور لاکھوں کی تعداد میں جائیدادوں سے بیدخل کیا جارہاتھا اس وقت بھی بلوچستان میں کسی ہندو یا سکھ کا ناخن تک نہیں ٹوٹا اور وہ کھلی آزادی سے اپنا کاروبار کررہے تھے ۔ تاریخی طور پر بھی بلوچ سماج میں ہمیشہ اقلیتوں کو برابری حاصل رہی ہے ۔ بلوچستان کے بادشاہ خان محراب خان کا وزیر خزانہ ایک ہندو ہوا کرتا تھا جو 1839 میں اسکے ہمراہ انگریزوں سے زمین کے دفاع کیلئے لڑ تے ہوئے شہید ہوا ۔ پاکستان سے 1973 کی جنگ میں شہید ہونے والے دلیپ داس کو آج بھی بلوچوں میں ایک شہید کا اعلیٰ درجہ حاصل ہے۔ ڈیرہ بگٹی میں ہندو برادری کے گھر شہید اکبر خان بگٹی کے گھر کے بالکل عقب میں واقع تھے تاکہ انہیں کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہو، بلوچستان میں ہندو برادری پر اگر باقاعدہ حملوں کی تاریخ ہم دیکھیں تو وہ 17 مارچ 2005 کو اس وقت ہوا جب پاکستانی آرمی نے شہید اکبر خان بگٹی کے گھر پر مارٹر گولوں سے حملہ شروع کردیا جس کے زد میں آکر کئی بیگناہ ہندو خواتین اور بچے بھی جانبحق ہوئیں ۔
گذشتہ ایک عرصے سے دیکھا جارہا ہے کہ پاکستانی فوج اب ایک خاص منصوبے کے تحت بلوچستان میں آزادی کی تحریک کو کمزور کرنے کیلئے پنجاب سے مذہبی شدت پسند تنظیموں خاص طور پر لشکری جھنگوی کو آباد کررہا ہے جو فوج کے باقاعدہ نگرانی میں مذہبی اقلیتوں پر حملہ کررہے ہیں ۔ ایک طرف یہ مذہبی شدت پسند ڈیتھ اسکواڈ کے صورت میں بلوچ آزادی پسند سیاسی کارکنوں کو نشانہ بنارہے ہیں تو دوسری طرف یہی عناصرشیعہ فرقے پر پے درپے حملوں میں بھی ملوث رہے ہیں اور حال ہی میں آواران کے علاقے میں ذکری فرقے کے ایک ذکر خانے پر حملہ کرکے بھی انہی عناصر نے سات ذکری بلوچوں کو شہید کیا تھا ، ہندو برادری بھی انہی عناصر کے نشانے پر ہیں انہیں تاوان کیلئے فوجی نگرانی میں اغواء کرنا بھی روز کا معمول بن چکا ہے یاد رہے کہ بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے ہندووں کو بلوچستان کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ جو بھی ہندو برادری پر حملہ کرنے میں ملوث ہوگا اسے قومی غدار سمجھا جائیگا اور انہیں تنظیم نشانہ بنائیگی ۔ ایک طرف پاکستانی پراکسی ہندووں سمیت باقی اقلیتوں کو نشانہ بنارہے ہیں تو دوسری طرف بلوچ خاص طور پر آزادی پسند انہیں ہر ممکن تحفظ دینے کی کوشش کرتے رہے ہیں ، ہنگول میں حفاظت کے ساتھ استادہ نانی مندر آج بھی بلوچوں کی مذہبی رواداری اور اقلیتوں کے احترام کا گواہی دیتا ہے ۔
حال ہی میں مشرق وسطیٰ میں اقلیتوں پر حملوں کے خلاف ویٹیکن سٹی کے سفارتکار آرچ بشپ سلوانو توماسی نے کہا ہے کہ دولت اسلامیہ کے اقلیتوں پر حملوں کو روکنے کیلئے طاقت کا استعمال ضروری ہے ، بلوچ مبصرین کے مطابق جس طرح مشرقِ وسطیٰ میں دولت اسلامیہ اقلیتوں کیلئے ایک خطرہ ہے اسی طرح اس خطہ میں پاکستانی فوج اور اسکے پراکسی بھی اقلیتوں کیلئے اس سے بھی بڑا خطرہ ہیں ، پاکستان کے ان دہشت گردانہ اور توسیع پسندانہ عزائم کو روکنے کیلئے اسکے خلاف طاقت کا استعمال اور بلوچ جیسے اعتدال پسند اور روشن خیال قوم کی مدد کرکے اسے مضبوط کرنا اب ناگزیر ہوچکی ہے ۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز