یکشنبه, اکتوبر 13, 2024
Homeخبریںاقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی صدردورہ پاکستان موقع پر جبری اغواشدہ افراد...

اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی صدردورہ پاکستان موقع پر جبری اغواشدہ افراد کیمپ ختم کرناقابل افسوس عمل ہے:IVBMP

کوئٹہ (ہمگام نیوز) بلوچستان میں جبری اغوا شدہ افراد سے متعلق وائس فار بلوچ مسنگ پرسنزVBMP کے مرکزی عہدیداران ماما قدید اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصرالللہ بلوچ نے وزیراعلی جام کمال اور ان کی کابینہ کے دوسرے وزراء کی یقین دہانی کے بعد وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (وی بی ایم پی) نے 10 سال سے جاری احتجاجی کیمپ جو کہ 3 ہزار464 روز طویل اپنے احتجاجی کیمپ کو عارضی طور پر ختم کرنے کا اعلان کردیا۔تفصیلات کے مطابق بدھ کے کے روز کوئٹہ میں وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے صوبائی وزراء میر ضیاء اللہ لانگو، سردار عبدالرحمن کھیتران ، میرظہوراحمد بلیدی ،حاجی محمد خان طور اوتمانخیل، میر سلیم احمدکھوسہ، محمدخان لہڑی ، پارلیمانی سیکرٹری میر سکندر عمرانی، نومنتخب سینیٹر منظور خان کاکڑ ، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ اور ماما قدیر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ صوبائی حکومت 2 ماہ کے دوران لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے ممکن اقدام اٹھائے گی، کیونکہ یہ بلوچستان کے اہم مسائل میں سے ایک ہے بلکہ اس سلسلے میں سوشل میڈیا و دیگر زرائع سے مختلف خبریں اور قیاس آرائیاں یومیہ بنیادوں پر سننے اور دیکھنے کو ملتی ہے جبکہ بلوچستان کی متعدد سیاسی پارٹیوں نے اس مسئلے کو ایجنڈا میں شامل کیا . بقول ان کے ماضی کی حکومتوں کی طرح ہم بھیج دلاسوں سے کام لے سکتے تھے مگر موجودہ حکومت نے دوسروں کی طرح اس مسئلے پر عارضی کام یا پوائنٹ سکورننگ کرنے کی بجائے عملی اقدامات کئے ہیں اس سلسلے میں ہماری وزیراعظم پاکستان عمران خان سے بھی بات چیت ہوئی ہے جس سے ہمیں مثبت رد عمل اور جواب ملا ہے اس کے علاوہ ہماری وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے عہدیداران سے بھی ملاقات ہوئی ہے بلکہ ہم نے انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ لاپتہ افراد کے معاملے میں کسی قسم کی غفلت کا مظاہرہ نہیں کیا جائے گا ,اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو اس بابت آن بورڈ لیا جائے گا ، ہم نے لاپتہ افراد کے لواحقین سے کہا ہے کہ وہ ہمیں 2 ماہ کا وقت دے اس سلسلے میں ہم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مشکور ہیں جنہوں نے ہمیں 2ماہ کا وقت دیا ہے اس مسئلے کے حل کے لئے نہ صرف حکومتی سطح پرباقاعدہ طریقہ کار بنایا جارہا ہے بلکہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اور جبری اغوا شدہ افراد کے لواحقین کے ساتھ رابطے میں رہ کر کام کیا جائے گا ، محکمہ داخلہ بھی اس معاملے کو دیکھے گی ۔وی بی ایم پی کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے نیوز کانفرنس کے دوران بتایا کہ کوئٹہ پریس کلب کے باہر لگایا گیا احتجاجی کیمپ 3 ہزار 464 روز بعد وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اور ان کی کابینہ کی یقین دہانی کے بعد 2 ماہ کے لیے ختم کیا گیا ہے۔

وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں ہونے والی پریس کانفرنس کے دوران جام کمال نے کہا کہ ان کی حکومت نے جبری اغوا شدہ افراد کے معاملے کا نوٹس لیا ہے۔مزید برآں انٹر نیشنل وائس فار بلوچ مسنگ نے سوشل میڈیا کے مائیکرو بلاگنگ ویب سائیٹ ٹوئیٹر پر جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ بلوچ جبری اغواکردہ افراد کیلئے لگائے گئے کیمپ کو بند کرنا نہایت ہی افسوس ناک عمل ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ 10 سال سے جاری علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ کو اس وقت بند کیا جارہا ہے جب اگلے ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی صدر پاکستان کا دورہ کرنے والی ہیں بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ احتجاجی کیمپ کو اس وقت بند کرنا نا صرف افسوس ناک ہے بلکہ جبری گمشدگیوں سے متاثر افراد کے لواحقین سے غداری کے مترادف ہے۔
واضح رہے کہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے بلوچستان میں پاکستانی فوج اور خفیہ ایجنسیز کی طرف سے 2دہائیوں سے بلاتفریق بلوچ نوجوانوں کے جبری اغوا کے بعد VBMP نے 2009 میں بھوک ہڑتالی اور احتجاجی کیمپ لگایا تھا، تاکہ لاپتہ بلوچ سیاسی کارکنان کی بحفاظت واپسی کو یقینی بنانے کے لیے ریاستی انتظامیہ پر دباؤ ڈال کرسوشل میڈیا زرائع سے مہزب دنیا کو بلوچ قوم کے ساتھ روا ریاستی ظلم سے آگاہی دی جاسکے۔یاد رہے سوشل میڈیا میں بلوچ ایکٹوسٹ نے چند روز پہلے ہزاروں اغوا شدہ افراد میں صرف 4افراد کی رہائی دوران اپنے خدشات کا اسی طرح سے اظہار کیا تھا کہ عین ممکن ہے ریاست کی طرف سے یہ سب کچھ ڈرامہ صرف اور صرف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی صدر کے دورہ پاکستان کے پیش نظر اس مسئلے کی اساسیت کو جانتے ہوئے خفت سے بچنے یا اس مسئلے کی بین الاقوامی سطح پر اجاگر ہونے کی خوف سے بچنے کے پیش نظر ایسا حربہ استعمال کیا گیا ہو ! یاد رہے گزشتہ روز کے جام کمال اور VBMPکے ماما قدیر اور نصرالللہ بلوچ کے سیکرٹریٹ میں مشترکہ پریس کانفرنس کے فورا بعد وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے بلوچ جبری اغوا شدہ ہزاروں افراد کو 2 کیٹیگریز میں تقسیم کرتے ہوئے کہاہے کہ لاپتہ افراد کی دو فہرستیں ہیں جن میں ایک فہرست دہشتگردوں کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز