واشنگٹن ( ہمگام نیوز ) مانٹیرنگ نیوز ڈیسک رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کے تنظیموں ، امریکا، برطانیہ اور جرمنی سمیت مغربی ممالک کی قیادت نے چین پر ایغور اقلیتوں کے خلاف بڑے پیمانے پر جرائم کے الزامات عائد کیے ہیں لیکن بیجنگ نے اسے ‘سیاسی اغراض‘ پر مبنی محض جھوٹ قرار دیا ـ
تفصیلات کے مطابق امریکا نے دنیا بھر میں مذہبی آزادی کے حوالے سے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ چین نے اپنے پورے مغربی سنکیانگ صوبے کو ایغور مسلمانوں کے لیے ایک’کھلی جیل بنایا ہے
امریکی وزارت خارجہ کے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے متعلق دفتر کے ڈائریکٹر ڈینیل نیڈل نے بدھ کے روز رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ چینی حکومت نے ”پورے خطے کو ایک کھلی ہوئی جیل میں تبدیل کردیا ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ یوں تو چین نے ایغوروں کی ”تربیت” اور ”جبری مزدوری” کے لیے پہلے ہی بڑی تعداد میں کیمپ قائم کر رکھے تھے لیکن اس نے اب جبر اور زیادتی کا دائرہ پورے صوبے تک وسیع کر دیا ہے۔
نیڈل نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا ”لوگوں کی نقل و حمل کی نگرانی کی جا رہی ہے۔لوگوں کو ایغوروں کے ساتھ رہنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے تاکہ وہ ان پر ہر وقت نگاہ رکھ سکیں۔”
امریکی عہدیدار نے کہا کہ امریکا چینی حکومت کی جانب سے انسانیت کے خلاف جرائم اور ایغور مسلمانوں نیز سنکیانگ میں دیگر نسلی اور مذہبی اقلیتی گروپوں کی نسل کشی پر آنکھیں موند نہیں سکتا ہے۔
مذہبی آزادی سے متعلق امریکی وزارت خارجہ کی بدھ کے روز جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں ایران، میانمار، روس، نائجیریا اور سعودی عرب میں بھی مذہبی آزادیوں پر قدغن عائد کرنے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔
جبکہ دوسری جانب چین نے ایک بار پھر ان الزامات کی تردید کی ہے۔چینی وزیر خارجہ وانگ وائی پہلے بھی اس طرح کے الزامات کو ‘بہتان تراشی‘ کہتے ہوئے مسترد کر چکے ہیں۔
وانگ وائی کا کہنا ہے کہ چین کے مغربی علاقے میں چوبیس ہزار مساجد ہیں اور سنکیانگ میں کبھی بھی نہ تو مبینہ نسل کشی ہوئی ہے اور نہ ہی مذہبی آزادیوں پر کوئی قدغن ہے اور نہ ہی لوگوں سے جبراً مزدوری کرائی جاتی ہے۔
لیکن ڈینیل نیڈل کا کہنا تھا کہ چین میں مسلمانوں کے خلاف ظلم و زیادتی دراصل ماضی میں تبت اور دیگر علاقوں میں بودھ مت کے ماننے والوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی ہی توسیع ہے۔ انہوں نے کہا،”آپ اسے بھی تبتی بودھوں سے لے کر فالون گانگ عقیدہ کے حامل مسیحیوں پر دہائیوں تک ہونے والی زیادتیوں کے سلسلے کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔”
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکین نے رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ چین نے مذہبی آزادی کو جرم میں تبدیل کردیا ہے اور انسانیت کے خلاف مسلسل جرائم اور ایغور مسلمانوں نیز دیگر مذہبی اور نسلی اقلیتی گروپوں کے خلاف نسل کشی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
دریں اثنا اقو ام متحدہ میں جرمن سفیر کرسٹوف ہیوس زین نے چین میں انسانی حقوق کے خلاف آواز بلند کرنے والے ملکوں اور تنظیموں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا،”جب تک ایغور دوبارہ آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے نہ لگیں، جب تک انہیں قیدوبند کرنے کا خطرہ ختم نہ ہوجائے جب تک انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روک نہ دی جائیں، اس وقت تک ہمیں اپنی آواز بلند کرتے رہنا ہو گا۔