دوشنبه, سپتمبر 30, 2024
Homeخبریںانسانی حقوق کی صورتحال پر پانک کی طرف سے جاری کردہ مئی...

انسانی حقوق کی صورتحال پر پانک کی طرف سے جاری کردہ مئی 2022 کی رپورٹ

موضوعات

 

 

•انسانی حقو ق کی صورتحال کا جائزہ

 

•جبری گمشدگیوں کی تفصیل

 

•ٹارچر سیلز سے رہائی پانے والے

 

•مسخ شدہ لاشیں،تفصیل

 

•پاکستانی فورسز کے ہاتھوں گرفتاریان اور تشدد

 

•شہری سہولیات کی عدم فراہمی پر اموت

 

 

 

●انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ

 

 

کراچی یونیورسٹی میں شاری بلوچ کے فدائی حملے کے بعد بلوچستان اور بلوچستان سے باہر پاکستان کے شہروں میں بلوچوں کی جبری گمشدگی اور انھیں شک و شبہ کی بنیاد پر گرفتار کرکے ان پر تشدد کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

 

 

مئی کے مہینے 61 افراد کو پاکستانی فورسز نے جبری لاپتہ کیا  جن میں سے 22 کو تشدد کے بعد چھوڑ دیا گیا جبکہ 39 تاحال جبری لاپتہ ہیں۔پاکستانی فورسز نے بلوچستان کے ضلع خاران سے 3 افراد ، شال سے 5 ، آوران سے 7 ، کیچ سے 7 ، خضدار سے 3 ۔ ھرنائی سے 1، لسبیلہ سے 6 ، گوادر سے 1 ، مستونگ سے 2 اور ضلع نوشکے سے 1 افراد کو گرفتار کرکے جبری لاپتہ کردیا۔ سندھ کے مرکزی شہر کراچی سے سب سے زیادہ 20 بلوچ پاکستانی فورسز نے گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کیے۔جبکہ راولپنڈی پنجاب پاکستان سے بھی 1 طالب علم کو جبری لاپتہ کیا گیا۔

 

 

گذشتہ مہینے میں کرک ءِ ڈل گچک سے ایک خاندان کو ایف سی ساؤتھ کے میجرجنیدمشتاق نے ماورائے عدالت و قانون حراست میں لینے کے بعد آرمی کیمپ میں قیدکیا جن میں ایک دودھ پیتا بچہ اور دو خواتین شاہ بی بی اور شھزادی بھی شامل تھیں۔

 

 

بلوچستان میں کوھلو میں 2  ، پنجگور سے 1 ، لسبیلہ سے ایک اور سندھ میں حیدرآباد سے 1 بلوچ کی لاش ملی۔حیدرآباد میں ملنے والی لاش امام بخش ولد کالوخان سکنہ سبی کی تھی جو بلوچ قومی تحریک آزادی کے ہمدرد تھے۔انھیں پاکستانی فوج نے حراست کے بعد قتل کردیا تھا۔

 

 

مئی کے مہینے میں بلوچ عوام کے خلاف پاکستانی فورسز نے 8 نمایاں پرتشدد کارروائیاں کی ہیں۔24 مئی کو کراچی پریس کلب کے سامنے انسانی حقوق کی عوامی تنظیم بلوچ یکجہتی کمیٹی اور جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرین پر پولیس نے تشدد کیا ، انھیں پرامن احتجاج سے روکا اور گرفتاریاں کیں۔

 

 

ضلع ڈیرہ بگٹی کے علاقے پیرکوہ میں صاف پانی کی عدم فراہمی اور حکام کی غفلت کی وجہ سے ہیضہ کی وبا پھوٹ پڑی ہے جس سے اب تک درجنوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔اطلاعات ہیں کہ پیرکوہ میں پانی کی قلت شدیدتر ہوتی جا رہی ہے جس کے باعث بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں ، لوگوں کے روزگار تباہ ہوچکے ہیں جبکہ حکام میڈیا پر گمراہ کن بیانات دے کر اس بحران کو چھپانے کی مجرمانہ کوشش کر رہے ہیں۔

 

 

حبیبہ پیرجان اور زلیا بنت محمدحیات نامی دو خواتین کو مختلف علاقوں سے مئی کی مختلف تاریخوں میں پاکستانی فوج نے گرفتار کیا۔دونوں خواتین کو گھریلو ناچاقیوں کی وجہ سے سسرالیوں نے انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے فوجی حکام کو یہ غلط معلومات پہنچائی تھی کہ دونوں خواتین شاری بلوچ کی طرح فدائی حملہ کرنا چاہتی ہیں۔ جس کی بناء پر پاکستانی فوجی حکام نے انھیں جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا۔یہ بات تشویشناک ہے کہ زلیا کی حراست میں ہونے کے باوجود پاکستان کے ائرپورٹ سیکورٹی فورس نے ان کی تصاویر کے ساتھ تمام ائرپورٹس کو ایک جعلی تھریٹ الرٹ جاری کیا جس میں زلیا کو ممکنہ مفرور خودکش بمبار قرار دیا گیا۔ان دونوں کیسز کے سامنے آنے کے بعد پاکستانی خفیہ اداروں کا کردار مزید واضح ہوا ہے کہ یہ ادارے بے بنیاد معلومات اور محض شک کی بنیاد پر لوگوں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بناتے ہیں۔ان اداروں کی غیرقانونی کردار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض افراد ان اداروں کو غلط معلومات کی فراہمی کے ذریعے اپنے ذاتی عناد کی بنیاد پر لوگوں کو جبری لاپتہ کروا رہے ہیں۔

 

 

انسانی حقوق کی ان نمایاں خلاف ورزیوں کے  پاکستانی ریاستی اداروں  نے بلوچستان میں واضح انسانی بحران کو جنم دیا ہے۔بلوچ نسل کشی اور اجتماعی سزا اپنے عروج پر ہے۔ اس اجتماعی سزا سے بلوچ سماج کے تمام طبقے یکساںپر متاثر ہیں۔پاکستانی فوج دو دہائیوں سے بلوچوں کی غیرقانونی حراست اورزیرحراست قتل جیسے سنگین جنگی جرائم کا ارتکاب کررہی ہے ۔اب اس ہولناک پالیسی میں تبدیلی لاکر فوج سے منسلک اداروں کے ساتھ پولیس کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ( سی ٹی ڈی )کوبھی شامل کیاگیا ہے ۔

 

 

سچائی یہ ہے کہ لوگوں کو فوج اٹھاتی اور قتل کرتی ہے لیکن فوج کو براہ راست الزام سے بچانے کے لیے جبری گمشدگیاں،چھاپے اور انکاونٹر جیسی ماورا عدالت کارروائیاں سی ٹی ڈی کو آگے لاکر کیے جا رہے ہیں  تاکہ یہ تاثرعام کیا جاسکے کہ فوج کی بجائے پولیس اور لوکل انتظامیہ یہ سب کررہے ہیں لیکن حقائق اتنے مضبوط ہیں کہ فوج ہزارجتن کرے اپنے جنگی جرائم کو نہیں چھپا سکتی  گزشتہ  دو دہائیوں سے بلوچ نسل کشی میں فوج اور ان کے ذیلی دارئے براہ راست ملوث ہیں۔

 

 

ماہ مئی میں بلوچ خواتین کی اغوانما گرفتاری کا رجحان سامنے آیا  اور ان پر دہشت گردی ایکٹ جیسی سنگین الزامات لگاکر ا یف آئی آر درج کیے گئے۔ جبری گمشدگیوں کی حالیہ لہر  میں کراچی میں بسنے والے بلوچ بھی بڑی تعداد میں متاثر ہوئے ہیں۔ مئی کے مہینے میں کراچی سے ایک درجن سے زیادہ نہتے اور مزدور طبقے سے وابستہ بلوچوں کی جبری گمشدگی، بلوچ قومی تحریک سے نہ صرف اظہار نفرت بلکہ لوگوں میں خوف پیدا کرکے کراچی اور بلوچستان کے درمیان خونی رشتوں میں دوریاں پیدا کرنے کی دانستہ کوشش کی جا رہی ہے۔

 

 

درجہ ذیل حقائق سے پاکستان کے جنگی جرائم کا پتا چلتا ہے کہ پاکستان کس نہج پر بلوچستان میں جنگی جرائم کاارتکاب کررہا ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے انسانی حقوق کی دعویدارتنظیم عالمی طاقت کے مراکز پر دباؤ ڈالیں کہ وہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر پاکستان کو جواب دہ بنائیں۔

 

 

●پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری لاپتہ افراد

 

 

بلوچستان کے مختلف اضلاع ،سندھ کے مرکزی شہرکراچی اور پنجاب سے 61  بلوچوں کو جبری لاپتہ کیا جن میں سے 22 افراد کو تشدد کے بعد رہا کیا گیاجبکہ 39 ابھی تک پاکستانی فوج کے ٹارچرسیلز میں قید اور جبری لاپتہ ہیں۔اس فہرست میں دوافراد ایسے بھی ہیں جنھیں مئی 2022 کے مہینے میں دو مرتبہ جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا، ایک شخص کو دونوں مرتبہ رہا کردیا گیا جبکہ ایک نوجوان دوسری مرتبہ جبری گمشدگی کے بعد تاحال بازیاب نہ ہوسکے۔

 

 

⁃1 مئی 2022

 

 

1۔ عبدالحق ولد عبدالرحمان  سکنہ کرک ءِ ڈل ، گچک ، پنجگور   کرک ءِ ڈل ، گچک ، ضلع پنجگور میں   سیاہ دمب کے آرمی کیمپ میں ایف سی ساؤتھ کے  میجرجنیدمشتاق  نے  طلب کرکے حراست میں لے  کر جبری لاپتہ کردیا۔

 

 

2۔یاسر ولد حمید بلوچ    سکنہ بھوانی ، ھب ،لسبیلہ      آدھی رات کو کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ اور پاکستانی فوج کے ماتحت اداروں نے حراست میں لینے کے بعد جبری لاپتہ کردیا۔

 

 

⁃3مئی2022

 

 

3۔عتیق سکنہ نوشکے ، کو پاکستانی فوج  نے ان کے گھر سے حراست میں لے کرجبری لاپتہ کردیا ۔ عتیق لمز میڈیکل کالج کے اسٹوڈنٹس ہیں۔ ان کی والدہ نے پولیس تھانے میں جبری گمشدگی کی ایف آئی آر درج کروائی ہے۔

 

 

4۔اصغر ولد عیسی      اور 5۔علی ولد بخشی      سکنہ  سنگھور پاڑ ہ ، ماری پور، کراچی ، سندھ  کو رینجرز اور پاکستانی فوج سے منسلک خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے ان کے گھر سے حراست میں لینے کے بعد جبری لاپتہ کردیا۔

 

10مئی کو اصغرولد عیسی بازیاب ہوئےجبکہ  20 مئی  کو علی ولد بخشی کو بھی رہا کردیا گیا،  ماورائے قانون  گرفتاری کی وجوہات کا علم نہیں ہوسکا۔

 

 

⁃5مئی2022

 

 

6۔ساجد علی ولد کمال خان ساسولی سکنہ کلی لدھا ، مستونگ   کو بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب کو رات کے 2 بجے سی ٹی اہلکاروں نے ان کے گھر سے گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کردیا ، ساجد علی اسکول کے طالب علم ہیں اور گورنمنٹ ہائی اسکول محمد شہی مستونگ میں  جماعت 9 کے طالب علم ہیں۔

 

 

7۔عرفان  بنگلزھی    سکنہ  مستونگ   پاکستانی فوجی اہلکاروں نے حراست میں لے کر جبری لاپتہ کردیا،  فلاحی تنظیم المدد فاؤنڈیشن کے رکن ہیں۔

 

 

⁃ 6 مئی2022

 

 

8۔دانش داد  سکنہ پسنی ضلع گوادر   گوادر پورٹ کےا حاطے سے کام کے دوران پاکستانی فوج کے ماتحت خفیہ اداروں نے حراست میں لے کر جبری لاپتہ کردیا ۔ سی پیک پر کام کرنے والی انٹرنیشنل کمپنی میں بطور سسٹم آپریٹر کام کرتے ہیں،  19 مئی کو بازیاب ہوچکے ہیں۔

 

 

⁃7مئی2022

 

 

9۔راشد علی ولد تاج بخش    سکنہ لیاری ،کراچی ، سندھ   رینجرز اور پاکستانی فوج سے منسلک خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے حراست بعد جبری لاپتہ  کردیا۔

 

 

رات کے 4 اور 5 بجے کے درمیان اپنے دوست کو ائرپورٹ لے جانے کے لیے گھر سے نکل رہے تھے۔

 

 

10۔شاہ زیب ولد عباس  رئیس بلوچ   سکنہ  حسن لشکری ولیج، کراچی ، سندھ   گھر سے پاکستانی فوج اور منسلک  اداروں نے گرفتارکرکے جبری لاپتہ کردیا، گرفتاری کے وقت گھر والوں کو یقین دہانی کرائی گئی کہ انھیں تفشیش کے بعد رہا کردیا جائے گا لیکن وہ تاحال جبری لاپتہ ہیں۔

 

 

⁃9مئی2022

 

 

11۔ظہور احمد ولد سوالی سکنہ جھاؤ ، آواران کو سی ٹی ڈی اہلکاروں نے  ھب سے گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کردیا ۔ایکسلینٹ اکیڈمی کوئٹہ کے طالب علم ہیں جو اپنے رشتہ داروں سے ملنے ھب گئے تھے۔ 13 مئی کو بازیاب ہوچکے ہیں۔

 

 

⁃10 مئی2022

 

 

12۔گلزار احمد ولد عبدالغفور سکنہ  کوچہ گریشگ خضدار  کو خضدار شہر سے پاکستانی فوجی اہلکاروں نے حراست میں لے کر جبری لاپتہ کردیا ، ان کے بارے میں تاحال ان کے لواحقین کو کوئی معلومات نہیں  دی گئی ہے۔

 

 

11  مئی2022

 

 

13۔ظہور احمد   سکنہ   زامرانی بازار، پیرل آباد گوٹھ ، ھب ، لسبیلہ رات کے دو بجے گھر پر پاکستانی فوج اور اس سے منسلک اداروں نے چھاپہ مار کر انھیں حراست میں لے کر جبری لاپتہ کردیا۔

 

ھب پریس کلب کے صدر یاسین بلوچ نے پولیس سٹی کے ایس ایچ او کو اطلاع دی کہ چار ویگو گاڑیوں پر سادہ لباس اور فورسز کی وردی میں ملبوس افراد نے ان کے بھتیجے ’ ظہور بلوچ‘  گھر سے اغواء کیا۔لمز اوتھل یونیورسٹی کے طالب علم ہیں ،  18 مئی کو بازیاب ہوچکے ہیں۔

 

14۔وسیم بلوچ    کو وندر ضلع لسبیلہ سے  سی ٹی اہلکاروں نے چھاپہ مارکر جبری لاپتہ کردیا۔ سی ٹی اہلکار پانچ ویگوگاڑیوں اور ایک موٹرسائیکل کے ساتھ آئے تھے۔ وسیم بارڈر پر ایرانی ڈیزل کی ترسیل کا کام کرتے ہیں۔

 

 

15۔عمران ولد محمد حنیف سکنہ دلپل آباد ، ماریپور، کراچی ، سندھ جو کہ کراچی الیکٹرک کے ملازم ہیں  کو پاکستانی فوج سے منسلک خفیہ اداروں نے  دوران ڈیوٹی حراست میں لینے کے بعدجبری  لاپتہ کردیا۔

 

 

⁃12مئی2022

 

 

16۔کمبر ولد حاجی سلیم   اور17 ۔ عرفان ولد عبدالرشید ساکنان  میناز ، بلیدہ ،کیچ کو گلشن اقبال کراچی سندھ سے پاکستانی فوجی اہلکاروں نے گھر سے اغواء نما گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کردیا۔

 

کمبر کراچی یونیورسٹی کے ایگریکلچرل ڈیپارٹمنٹ کے طالب علم اور عرفان کراچی یونیورسٹی میں بائیو کیمسٹری کے طالب علم ہیں۔

 

13مئی 2022 کو دونوں طالب علم بازیاب ہوگئے۔

 

18 ۔ وحید بلوچ ولد شریف سکنہ لیاری کراچی سندھ  کو رینجر ز اور پاکستانی فوج سے  منسلک خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے اغواء نما گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کردیا۔جو ایف ایس سی کے  طالب علم ہیں۔16 مئی  2022 کو بازیاب ہوچکے ہیں۔

 

19 ۔ گزین بلوچ    کو سی ٹی ڈی اہلکاروں نے  شال سے ماورائے عدالت و قانون گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کردیا۔ گزین اسکالر ہیں جنھوں نے حال ہی پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم فل کیا تھا اور شال میں سول سروس  کے پوسٹوں کے لیے تیاری کر رہے تھے۔ 18 گھنٹے بعد گزین کو رہا کردیا گیا۔

 

20 ۔ فیروز بلوچ ولد نوربخش   سکنہ آپسر ،تربت ، کیچ   کو روالپنڈی پنجاب سے پاکستانی فوج سے منسلک اداروں نے گرفتار کرکے جبری لاپتہ کردیا جو تعلیم کے سلسلے میں روالپنڈی پنجاب  گئے  ہیں۔ پولیس نے  جبری لاپتہ طالب علم کی گمشدگی کی ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کردیا۔

 

 

21 ۔  سید محمد مری سکنہ دکی ھرنائی    کو سوروں کے قریب پاکستانی فوجی اہلکاروں نے حراست میں لے کر جبری لاپتہ کردیا۔ سید محمدمری مویشی بان ہیں اور اپنی بکریاں بیچنے شہر جا رہے تھے۔ انھیں کئی دن ٹارچرسیلز میں تشدد کے بعد رہا کردیا گیا۔

 

 

⁃16 مئی2022

 

 

22 ۔  نورجان زوجہ فضل سکنہ سندی بازار ، ھوشاپ ، کیچ کو سی ٹی ڈی ، ایف سی او ر پاکستان کی فوج سے منسلک خفیہ اداروں نے ان کے گھر میں چھاپہ مار کر حراست میں لیا۔ نورجان کو جبری لاپتہ کیا گیا بعد ازاں عوامی احتجاج کے نتیجے میں انھیں سیشن کورٹ تربت میں پیش کیا گیا۔ پاکستان کے سیکورٹی حکام نے نورجان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ خودکش  حملے کی تیاری میں تھی ۔ سیکورٹی فورسز کے مطابق انھیں جب گرفتار کیا گیا تو وہ خودکش جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔

 

نورجان کے ہمسایوں نے میڈیا کو بتایا ہے کہ نورجان ناخواندہ  اور گھریلو خاتون ہیں جس کے پاس اسمارٹ موبائل تک نہیں اور جب انھیں گرفتار کیا گیا تھا توہ اپنے گھر کے صحن میں سو رہی تھیں۔نورجان ضمانت پر رہا ہیں۔

 

23 ۔  نسیم بلوچ ولد عظیم  بلوچ     کو تل، ھوشاپ، کیچ  سے ایف سی اور سی ڈی اہلکاروں نے چھاپہ مار کر گرفتار کیا۔گرفتاری کے بعد انھیں12 گھنٹے جبری لاپتہ رکھنے کے بعد رہا کردیا گیا۔ نسیم بلوچ ڈسپنسر ہیں ۔ان کی گرفتاری کے خلا ف عوام نے احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔

 

24 ۔علی بخش مینگل اور 25 ۔منیراحمد کو  وڈ ، خضدار سے  جبری لاپتہ کیا گیا ۔ ان  کی جبری گمشدگی کے خلاف اہل علاقہ نے کراچی تا شال شاہراہ پر دھرنا دے کر احتجاج کیا ۔

 

26 ۔  فضل احمد ولد محمد علی سکنہ بدرنگ ، کولواہ ، کیچ کو ایف سی کی پانچ گاڑیوں پر مشتمل اہلکاروں نے ان کے گھر واقع بدرنگ سے حراست میں لے کر جبری لاپتہ کیا بعدازاں ان کی گرفتاری   ھوشاپ میں نورجان زوجہ فضل کے ساتھ  ظاہر کی گئی اور انھیں مبینہ  خودکش حملے  کا سہولت کار قرار دے کر ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔

 

سی ٹی ڈی کے اس دعوے کے جھوٹے ہونے کی گواہی میڈیا اور چشم دید گواہان کے ذریعے رکارڈ پر آچکے ہیں۔

 

 

⁃17 مئی2022

 

 

27 ۔  نوجوان (نام ظاہر نہیں کیا گیا )   کو عبدالرحمان گوٹھ ہاکس بے کراچی سندھ سے پاکستانی فوج سے منسلک اداروں نے جبری لاپتہ کیا۔ایک دن غیرقانونی حراست میں جبری لاپتہ رکھنے کے بعد نوجوان کو رہا کردیا گیا ۔

 

 

⁃18 مئی2022

 

 

28 ۔  کوچ استاد عبدالرشید کو سنگولین ، لیاری ، کراچی ، سند ھ سے سی ٹی ڈی اہلکاروں نے گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کردیا ۔ ان کی گرفتاری کے وقت اہلکاروں نے گھر میں توڑ پھوڑ کی اور دیگر گھروالوں کو بھی سنگین نتائج کی دھمکی دی۔

 

21 مئی 2022 کواستاد عبدالرشید کو رہا کردیا گیا۔

 

29 ۔  گزین بلوچ اور30۔   میر احمد بلوچ کو جوائنٹ روڈ شال  کو سادہ لباس پہنے پاکستانی فوج سے منسلک خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے بغیر کوئی وجہ بتائے ماورائے عدالت  گرفتار کیا ۔ کئی گھنٹے جبری لاپتہ رکھنے کے بعد دونوں کو تشدد کرکے چھوڑ دیا گیا۔

 

یاد رہے کہ گزین کو کچھ دن پہلے بھی جبری لاپتہ کیا گیا تھا۔

 

 

⁃19 مئی2022

 

 

31۔  حبیبہ بنت پیرجان   سکنہ نزرآباد ، تمپ ، کیچ کو گلشن مزدور ،نیول کالونی ، کراچی ،سندھ کو علی الصبح پولیس اور پاکستانی فوج سے منسلک خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کیا۔ حبیبہ پیرجان  بلوچی زبان کی شاعر ہیں اور اپنے بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں کراچی میں مقیم ہیں، حبیبہ کپڑے سی کر گزر بسر کرتی ہیں۔

 

ان کے بارے میں سرکاری سطح پر کوئی اطلاع فراہم نہیں کیا گیا لیکن پاکستان کے خفیہ اداروں کے سوشل میڈیا ٹرولز نے ان پر خودکش بمبار ہونے کا الزام لگایا ۔گرفتاری اور جبری گمشدگی کے دو دن بعد حبیبہ کو رہا کردیا گیا۔

 

32۔  اسد اللہ ولد شیر جان سکنہ وشبود ، پنجگور کو پاکستانی فوج کے ماتحت ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں نے جوکہ ایک ڈبل ڈور گاڑی میں سوار تھے اغواء کیا ، اغواء کے چند گھنٹوں بعد انھیں چھوڑ دیا گیا۔

 

33۔  منیر احمد ولد حمزہ کو فقیر کالونی ، کراچی ، سندھ سے پاکستانی فوج سے منسلک خفیہ اداروں نے گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کردیا۔25 مئی 2022 کو رہا کردیے گئے۔

 

 

⁃20 مئی2022

 

 

34۔  ثناء اللہ ولد عبدالنبی   سکنہ چتکان بازر ، پنجگور  کو پاکستانی فوج نے گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کردیا۔

 

 

 

⁃21 مئی2022

 

 

35۔  اشرف رضا  سکنہ پرانا گولیمار ، کراچی ، سندھ کو پولیس ، رینجرز اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں گھرسے گرفتار کرنے کے بعد 12 گھنٹے جبری لاپتہ رکھا۔ ذرائع نے بتایا کہ اشرف رضا کو جبری لاپتہ حبیبہ پیرجان کے ساتھ  فون پر رابطہ ہونے کی بنیاد پر حراست میں لیا گیا ہے۔ اشرف رضا کو حبیبہ کے ساتھ رہا کردیا گیا۔

 

 

⁃22 مئی2022

 

 

36۔  نواز علی ولد ناصر      37۔   عادل ولد امام بخش 38۔   زاہد ولد جان محمد39۔  اسرار ولد امحمد نور    اور40۔   علی ولدبخشی   کوٹکری ولیج،  سنگھور پاڑہ، ماری پور ، کراچی ، سندھ سے صبح کے وقت پولیس اور پاکستانی فوج سے منسلک خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے چھاپہ مار کر گرفتارکرنے کے بعد جبری لاپتہ کردیا۔3 مئی 2022 کو علی ولدبخشی کو پہلے بھی جبری لاپتہ کیا جاچکا تھا ، رہائی کے بعد انھیں دوبارہ حراست میں لے کر جبری لاپتہ کردیا گیا ہے۔

 

 

⁃23 مئی2022

 

 

41۔   ابرار ولد امام او ر 42۔   کریم جان ولد فضل سکنہ شا ہ آباد ، آسکانی ، تربت ، کیچ کو ان کے گھر سے پاکستانی فوجی اہلکاروں نے گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کردیا۔دونوں عطاشاد ڈگری کالج کے طالب علم ہیں ، انھیں اس وقت گرفتار کیا گیا ہے جب انٹرمیڈیٹ کے امتحانات ہو رہے ہیں۔

 

 

25 مئی2022

 

 

43۔الطاف ولد دلمراد سکنہ بلور ، کولواہ ، کیچ کو  فرنٹیئر کور کے اہلکاروں نے چھاپے کے دوران حراست میں لے کر جبری لاپتہ کردیا۔

 

 

⁃26 مئی2022

 

 

44۔خدابخش ولدپسندخان 45۔علی خان ولد خدابخش 46۔قادربخش ولد خدابخش 47۔ثناء اللہ ولد بیزن -48۔صابرولدثناء اللہ اور 49۔حسن ولدثناء اللہ   ساکنان کیل تر ، مشکے ، آواران    کو پاکستانی فوج نے  حراست میں لے کر جبری لاپتہ کردیا۔ یہ سب گزشتہ ایک مہینے سے فوجی حکام کی طلبی پر سنیڑی آرمی کیمپ میں پیش ہو رہے تھے۔

 

 

⁃27 مئی2022

 

 

50۔دوست محمد مری ولد خدابخش اور 51۔محمداسماعیل ولد کریم خان مری  ساکنان ھب چوکی ، لسبیلہ  کو مری کیمپ ، نیوکاہان ، شال سے رات کے 3 بجے سی ٹی ڈی اہلکاروں نے گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کردیا۔

 

52۔محمد الیاس ولد گل محمد سکنہ چتکان پنجگور کو ان کے گھر واقع چتکان سے پاکستانی فوج نے حراست میں لینے کے بعد جبری لاپتہ کردیا۔

 

 

⁃28 مئی2022

 

 

53۔زبیر ولد مولابخش سکنہ ٹکری ولیج ماری پور  کو سی ٹی ڈی نےحراست میں لیکر لاپتہ کردیا،  محکمہ فشریز میں ملازم ہیں۔

 

54۔خاتون جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا   ، حکیم مالدار کی بہو سکنہ تنک ءِ دپ ، مشکے ، آواران کو ان کےگھر سے پاکستانی فوج کے آلہ کار ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں نے اغواء کے بعد جبری لاپتہ کردیا ہے۔

 

ریڈیو زرمبش کی رپورٹ کے مطابق ، 28 مئی 2022 کو  پاکستانی فوج کی حمایت یافتہ ڈیتھ اسکواڈ کے آلہ کار نزیر ولد حضوربخش  ولدفتح خان  سکنہ تنک مشکے ضلع آواران نے  عبدالحکیم مالدار کی بہو کو اغواء کرلیا۔

 

متاثرہ خاندان کے ایک شخص نے میڈیا کو بتایا کہ 28 مئی 2022 کو نزیر ولد حضوربخش اور اس کے ایک دوسرے بھائی نے حکیم مالدار کے گھرپر حملہ کیا اور ان کی بہو کو اغواء کرکے اپنے ساتھ لے گئے۔اس واردات کے بعد انھوں نے  مغوی خاتون کے ساتھ میانی کلات مشکے میں عبدالخالق ولدمولابخش کے گھر قیام کیا ، وہ بھی پاکستانی فوج کا آلہ کار ہے اور راگے سکن مشکے ضلع آواران کا رہائشی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ مذکورہ افراد خاتون کو اغواء کرنے کے بعد پاکستانی فوج کے تمام چیک پوسٹوں سے ہوکر گزرے ، سنیڑی مشکے میں جوری کے فوجی کیمپ کے سامنے سے گزرتے ہوئے ان کو مغوی خاتون کے ساتھ دیکھا گیا ہے۔

 

55۔زلیا بنت محمد حیات اور56 ۔ امیر ولد محمد حیات ساکنان آسیاباد، تمپ، کیچ   زلیا بنت محمد حیات کو آسیاباد سے پاکستانی فوجی اہلکاروں نے مبینہ طور پر ان کے شوہر کے کہنے پر حراست میں لیا گیا جبکہ ان کے بھائی امیر ولد محمد حیات کو جام گوٹھ ضلع ملیر کراچی سندھ سے گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کیا گیا۔ زلیا کو حراست میں لینے کےباوجود پاکستانی سیکورٹی حکام کے کہنے پر پاکستان ائرپورٹ سیکورٹی فورس نے ایک جعلی تھریٹ الرٹ جاری کیا ، اس تھریٹ الرٹ کے ساتھ زلیا کی دو تصاویر بھی جاری کی گئیں اور انھیں ممکنہ مفرور  خودکش حملہ آور قرار  دیا گیا۔لیکن اس سنگین الزام کے باوجود دونوں کو خاموشی کے ساتھ 31 مئی 2022 کو رہا کردیا گیا ۔ اس دوران زلیا کی کردارکشی بھی کی گئی اور ان کے خاندان کو بھی ذہنی اذیت کا شکار بنایا گیا۔امیرکو بھی اس لیے حراست میں لیا گیا تھا کہ وہ زلیا کے بھائی ہیں۔

 

زلیا کے خاندانی ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ شوہر کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے باعث اس کے شوہر نے جو کہ نشہی ہے ان کی جھوٹی مخبری کرکے انھیں جبری لاپتہ کروایا تھا۔

 

 

⁃29 مئی2022

 

 

57۔ حبیب جھنگو ولد استاد بشیر احمد اور 58۔ انضام زھری ولد محمد یوسف زھری سکنہ خاران کو خاران سے  پاکستانی فوجی اہلکاروں نے گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کردیا۔ حبیب جھنگو فٹبالر اور انضمام  زھری طالب علم ہیں۔

 

 

⁃30مئی2022

 

 

59 ۔  ولی محمد ولد محمد حنیف سمالانی سکنہ لجے توک خاران کو فرنٹیئر کور کے اہلکاروں نے حراست میں لینے کے بعد جبری لاپتہ کردیا۔

 

 

⁃31مئی2022

 

 

60 ۔  منگل ولد غلام حیدر  مری اور61  ۔   گلزار  ولد علی مرادمری کو دن تین بجے پاکستانی فوجی اہلکاروں نے نادرن بائی پاس ھب ، لسبیلہ سے حراست میں لے کر جبری لاپتہ کردیا۔ان کےخاندانی ذرائع کے بعد ان کی گرفتاری کے بعد بھی رات کو ان کے گھر کے اطراف کالے شیشے والی گاڑیاں چکر لگاتی رہیں جو کہ پاکستانی فوج سے منسلک خفیہ اداروں کے زیر استعمال ہیں۔

 

 

 

●مہینوں پاکستانی فوج کے ٹارچر سیلز میں جبری لاپتہ ہونے کے بعد مئی 2022 میں بازیاب افراد

 

 

مہینوں اور سالوں پاکستانی ٹارچرسیلز  میں  جبری لاپتہ رہنے والے 15 افراد بازیاب ہوچکے ہیں ۔

 

⁃1 مئی2022

 

 

1 ۔  مرتضی لانگو   سکنہ شال ، پاکستانی ٹارچر سیلز  میں 10 مہینے تشدد سہنے اور جبری گمشدگی کے بعد رہا کیے گئے۔

 

 

⁃ 4 مئی2022

 

 

2 ۔ عبدالوہاب ، طویل عرصے کے بعد پاکستانی فوج کے ٹارچرسیلز میں جبری گمشدگی کے ڈیربگٹی میں  بازیاب ہوئے ہیں۔ تشدد کی وجہ سے یاداشت کھوبیٹے ہیں اور روانی کے ساتھ بات نہیں کرسکتے۔

 

 

⁃5 مئی2022

 

 

3 ۔ عبدالغنی لشکر ی  سکنہ غریب آباد چتکان پنجگور مارچ 2022 سے پاکستانی فوج کے ٹارچرسیلز میں قید اور جبری لاپتہ رہنے کے بازیاب ہوئے ہیں۔ تشدد سے صحت گرچکی ہے  ،  انھیں علاج کے لیے کراچی لے جایا گیا۔

 

 

⁃10 مئی2022

 

 

4 ۔ بیبگر امداد ، نمل یونیورسٹی اسلام آباد میں انگریزی ادب کے ساتویں سمسٹر کے طالب علم تھے۔ جو چھٹیاں گزارنے پنجاب یونیورسٹی میں اپنے کزن کے پاس گئے جہاں 27 اپریل کی صبح سات بجے یونیورسٹی کے ہاسٹل میں پاکستانی فوج سے منسلک خفیہ اداروں نے ماورائے قانون حراست میں لے کر جبری لاپتہ کردیا۔

 

بیبگرامداد کی جبری گمشدگی کے خلاف طلباء تنظیموں نے احتجاجی مظاہرے کیے ۔ 10 مئی کو انھیں بازیاب کرکے  وکیل کے حوالے کیا گیا۔

 

 

⁃13 مئی2022

 

 

5 ۔ بھروز  ولد ماسٹر محمد غلام سرور   اور 6 ۔  سرور ولد ماسٹر محمد غلام سرور   ساکنان نوشکے کو پاکستانی فوج نے نومبر 2021 کو حراست میں لے کر جبری کیا تھا، انھیں طویل عرصے تک   بغیر کسی مقدمے کے  ٹارچرسیلز میں قید رکھنے کے بعد 13 مئی 2022 کو رہا کردیا گیا۔

 

7۔عبدالرحمان بادینی ولدمحمد جان بادینی  ، بلوچستان یونیورسٹی کے طالب علم ہیں ۔ جو طویل عرصے تک پاکستانی فوج  ٹارچرسیلز میں جبر ی گمشدہ رہنے کے بعد بازیاب ہوئے۔

 

 

8 ۔  وحید ولد رستم خان  اور 9 ۔  محمد رحیم ولد یعقوب  ساکنان کلی لوڑ کاریز سریاب ، شال   گزشتہ تین سال سے پاکستانی فوج کے ٹارچرسیلز میں جبری گمشدگی کا شکار تھے، بازیاب ہوگئے ہیں۔

 

 

10۔  حاجی عبدالرحیم  سکنہ پندران کلات  ،  شال سے  بازیاب ہوگئے ہیں۔طویل عرصے تک جبری لاپتہ تھے۔

 

 

11 ۔  فیاض سرپرہ کو پاکستانی فوج نے ھدہ منوجان روڈ شال سے  گرفتاری کے بعد 30 اگست 2021 سے لے کر 13 مئی 2022 تک جبری لاپتہ رکھا،فیاض کی بیوی نے ان کی بازیابی کی تصدیق کی ہے۔

 

 

12 ۔  ارشد بنگلزھی اور13 ۔   راشد بنگلزھی ، سات مہینے تک پاکستانی فوج کے ٹارچرسیلز میں بند اور جبری لاپتہ تھے ، بازیاب ہوچکے ہیں۔

 

23 مئی2022

 

14 ۔  غنی بلوچ ولد حبیب خان لانگو بلوچ  اور15 ۔   نعمان ولد ڈاکٹر امان اللہ لانگو  بلوچ کو پاکستانی فوج نے 23 مارچ 2022 کو کلی اسماعیل شال سے حراست میں لینے کے بعد اپنے قید میں جبری لاپتہ رکھا، دو مہینے بعد بازیاب ہوگئے ہیں۔

 

 

●بلوچستان اور سندھ سے ملنے والی بلوچوں کی لاشیں

 

 

اس مہینے بلوچستان سے 5 افراد کی لاشیں ملی ہیں جبکہ ایک جبری لاپتہ بلوچ کی لاش حیدرآباد سندھ سے ملی ہے، جو کہ بلوچ قومی تحریک کے ہمدرد بتائے جاتے ہیں۔انھیں پاکستانی فوج نے سکھر سندھ سے حراست میں لے کر جبری لاپتہ کردیا تھا۔

 

 

⁃04 مئی2022

 

 

1 ۔  2 ۔  نامعلوم دو(2)افراد کی لاشیں کوھلو سے برآمد ہوئیں جنھیں ضلعی انتظامیہ نے تحویل میں لے کر سول ہسپتال پہنچا یا، لاشوں کی شناخت نہیں ہوسکی۔

 

 

⁃06 مئی2022

 

 

3 ۔  زاہد شیخ ، عید کے روز سے لاپتہ تھے ، ان کی لاش دارو ہوٹل ، سدرن بائی پاس ، ھب سے ملی ۔ مقتول کو گولیاں مارکر قتل کیا گیا تھا۔

 

 

08 مئی2022

 

 

4 ۔  امام بخش ولد کالوخان  سکنہ سبی  کو 28 اپریل 2022 کو پاکستانی فوج سے منسلک اداروں نے سکھر سندھ سے حراست میں لینے کے بعد جبری لاپتہ کیا ، دوراں حراست انھیں قتل کرکے لاش حیدرآباد سندھ میں پھینک دی گئی ، بتایا جاتا ہے کہ امام بخش ول د کالوخان بلوچ قومی تحریک کے ہمدرد تھے۔

 

 

⁃09 مئی2022

 

 

05۔  عبدالحکیم سکنہ بونستان پنجگور کی لاش برآمد ہوئی۔

 

. پاکستانی فوج اور دیگر اداروں کی بلوچ عوام کے خلاف پرتشدد کارروائیاں

 

پاکستانی فوج اور دیگر فورسز کے ہاتھوں بلوچ عوام کے خلاف تشدد کے 7 نمایاں واقعات رپورٹ ہوئے۔ جن میں  پرامن مظاہرین پر پولیس تشدد ، مظاہرے کو طاقت کے زور پر روکنا اور ایک خاندان کے بیشتر افراد کو غیرقانونی طور پر قید میں رکھنے جیسے واقعات شامل ہیں۔

 

 

⁃ 06 مئی2022

 

 

1۔وشبود ، پنجگور میں مسافر کوچ روک کر طالب علم  ’شاہ بیگ داد ولد ولی داد سکنہ شاپک تربت  کو اغواء کرنے کی کوشش :    تربت سے شال جانے والی مسافر کوچ کو وشبود ایف سی چیک پوسٹ پر روک کر کوچ میں سوار طالب علم ’شاہ بیگ ‘ کر کوچ سے اتار کر ایف سی نے تحویل میں لیا۔مسافروں نے اس کی ماورائے قانون گرفتاری پر سات گھنٹے تک احتجاج کیا جس کے بعد ایف سی نے اسے پولیس کے حوالے کیا۔ پولیس نے اس کے خلاف مجرمانہ ثبوت نہ ہونے کی بناء پر اسے رہا کردیا۔

 

 

⁃07 مئی2022

 

 

2۔کلری ، گچک ، پنجگور  میں  فوج کا بیٹی کا رشتہ بلوچ تحریک آزادی  سے وابستہ شخص سے کرنے پر ’کریم بخش ‘ کو طلب کرکے سنگین نتائج کی دھمکی اور رشتہ توڑنے کو کہنا:  گچک پنجگور کے رہائشی کریم بخش ولد محمد نے اپنی بیٹی ’نورگل ‘ کا رشتہ ’عظیم ‘ نامی نوجوان سے طے کر رکھا ہے جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ بلوچ تحریک آزادی سے وابستہ ہیں۔اس پر پاکستانی فوج نے ’کریم بخش‘ کو گچک میں واقع  کھن آرمی کیمپ  میں طلب کر کے رشتہ توڑنے کے لیے کہا ۔ انھوں نے مذکورہ خاندان پر دباؤ ڈالا کہ وہ ‘عظیم ‘ کو آرمی کیمپ میں لاکر سرینڈر کروائیں  اور ایسا نہ کرنے کی صورت علاقہ بدر کرنے کی دھمکی دی۔

 

 

⁃11 مئی2022

 

 

3۔ضلع کیچ میں تربت سے شاپک جاتے ہوئے بینک کیشئر  ’ساحرعلی ‘پر پاکستانی فو ج کا تشدد :   تربت سے شاپک جاتے ہوئے’ساحرعلی ولد محمدعلی‘ کو پاکستانی فوج نے بلاکسی وجہ کے راستے میں روک کرشدید تشدد کا نشانہ بنایا ۔ تشدد کے نتیجے میں ساحرعلی بری طرح زخمی ہوگئے ہیں جنھیں علاج کے لیے تربت ہسپتال لے جایا گیا۔ساحر علی بینک میں ملازم ہیں۔

 

 

⁃ 12 مئی2022

 

 

4۔ڈل بازار ، ڈانڈار ، کولواہ ، کیچ میں پاکستانی فوج کا خواتین اور بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی: ڈل بازار میں ایف سی کے اہلکاروں نے رات کے مردوں کی غیرموجودگی میں ایک گھر میں گھس کر خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی کوشش کی۔خواتین اور بچوں کی مزاحمت ارو شور مچانے پر اہلا علاقہ مدد کو پہنچے اور ایف سی اہلکار وں کو واپس لوٹنا پڑا ۔

 

ایک سال قبل بھی مادگ کلات ڈنڈار میں ایف سی اہلکارنے  ایک گھر میں گھس کر خاتون سے جنسی زیادتی  کی کوشش کی تھی۔

 

 

⁃21 مئی2022

 

 

5۔خاران میں فوج کا ’کشمیرمحمدحسنی ‘ کے گھر پر چھاپہ ، توڑ پھوڑ، خواتین اور بچوں پر تشدد :خاران میں پاکستانی فوج نے کشمیر محمدحسنی کے گھر پر چھاپہ مار کر گھروں کے سامان توڑے ،خواتین اور بچوں سمیت دیگر افراد پر تشدد کیا ۔

 

 

⁃24 مئی2022

 

 

6۔کراچی سند ھ میں جبری گمشدگی کے خلاف احتجاجی مظاہرے پر طاقت کا استعمال اور گرفتاریاں:   بلوچستان میں خواتین کی جبری گمشدگیوں اور جبری گمشدگیوں کے واقعات میں اضافہ پر ’ بلوچ یکجہتی کمیٹی ُ اور ’ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز ‘ کے زیر اہتمام ’کراچی پریس کلب ‘ کے سامنے ایک احتجاج مظاہرے کی کال دی گئی ۔لیکن جیسے ہی مظاہرین کراچی پریس کلب کے سامنے پہنچے تو ’سندھ پولیس‘ نے انھیں گرفتار کرنا شروع کیا۔ گرفتاری کے وقت مظاہرین پر تشدد بھی کیا گیا ، جبکہ بعض مظاہرین کو گرفتاری کے بعد گھنٹوں جبری لاپتہ بھی رکھا گیا۔

 

معروف صحافی وینگس کے مطابق انھیں پریس کارڈ دکھانے کے باوجود مظاہرے کے کوریج سے روکا گیا اور انھیں پریس کلب کے سامنے کھڑے ہونے سے بھی منع کیا گیا۔اس مظاہرے سے  بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کی  آرگنائزر آمنہ بلوچ ،سماجی کارکن نداکرمانی ،گذشتہ سات سالوں سے  جبری لاپتہ طالب علم  رہنماء شبیر بلوچ کی اہلیہ زرینہ بلوچ اور ان کی بہن دیگر جبر ی لاپتہ افراد کے لواحقین کو حراست میں لیا گیا ۔

 

بعدازاں نداکرمانی نے ٹویٹر پر اس واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا تھا کہ گرفتاری کے بعد تھانے میں بلوچ خواتین کے ساتھ نمایاں طور پر امتیازی سلوک برتا گیا اور بلوچ نہ ہونے کی بنیاد پر پولیس اہلکاروں اور افسران نے ان کے ساتھ نرمی برتی اور شائستہ رویے کا مظاہر ہ کیا جبکہ  ان کے ساتھ گرفتار بلوچ خواتین کے ساتھ سخت اور ناشائستہ رویہ اپنایا گیا۔

 

 

⁃26 مئی2022

 

 

7۔کرک ء ِ ڈ ل ، گچک ، پنجگور سے گرفتار خاندان کی طویل گمشدگی: 26 اپریل 2022 کو کرک ء ِ ڈل ، گچک ، پنجگور میں پاکستانی فوج نے  عبدالرحمان ولد داؤد کے گھر پر چھاپہ مار کر ان کے بیٹے ’عبدالحق ‘ کو جبری لاپتہ کیا جن کی  جبری گمشدگی  یکم مئی کو میڈیا پر رپورٹ ہوئی۔

 

عبدالحق کی گرفتاری کے 27 اپریل 2022 کو ایف سی اہلکارں نے  عبدالرحمان کے گھر سے شاہ بی ، شھزادی اور ان کی کچھ مہینوں کے بیٹے کو حراست میں لے کر کیمپ منتقل کیا۔ ایف سی کے میجرجنیدمشتاق نے انھیں آرمی کیمپ میں بغیر کسی وجہ کے قید رکھ کر جبری لاپتہ کیا۔

 

بعد ازاں بلوچستان ہائی کورٹ میں اس کیس کی سنوائی کے بعد 26  مئی 2022 کی شام ’عبدالرحمان ‘  کو رہا کیا گیا لیکن خاندان کے دیگر افراد بدستور ایف سی کے میجرجنیدمشتاق کی غیرقانونی حراست میں رہے۔

 

 

⁃27مئی2022

 

 

8۔تجابان ، تربت ، کیچ میں ایف  سی   پوسٹ سے آبادی مارٹر گولے داغے گئے :  تجابان میں ایف سی چیک پوسٹ سے ماسٹر وارث نامی شخس کے گھر پر بلا کسی وجہ کے کئی مارٹر کے گولے داغے گئے جس سے گھر کو شدید نقصان پہنچا۔ واقعے کے خلاف اہلیان تجابا ن نے سی پیک روڈ کو بلاک کرکے احتجاج کیا  ، انھوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ایف سی کو شہری آبادی سے ہٹایا جائے۔

 

 

●بنیادی شہری سہولیات کی عدم فراہمی اور اموات

 

 

بلوچستان کے بیشتر علاقے خشک اور کم آب ہیں لیکن حالیہ موسمیات تبدیلی ، آبادی میں اضافہ اور ریاست پاکستان کی طرف سے بنیادی شہری سہولیات کی فراہمی سے مجرمانہ غفلت نے بلوچستان میں بحرانی صورتحال پیدا کی ہے۔  صاف پانی کی عدم فراہمی کا ایک بڑا مسئلہ ضلع ڈیرہ بگٹی کو درپیش ہے جہاں ہیضہ کی وبا پھوٹنے سے درجنوں افراد کی اموات ہوئی ہیں۔ علاوہ ازیں بارکھان ، لسبیلہ اورکوھلو کے بعض علاقوں میں بھی صاف پانی کی عدم فراہمی کے باعث بیماریاں پھیل رہی ہیں ۔

 

جب یہ بات سوشل میڈیا کے توسط سامنے آئی تو وقتی طور پر مختلف این جی اوز نے لوگوں کو صاف پانی کی فراہمی کے لیے اقدامات کیے لیکن اخراجات اور اس کا مستقل حل نہ ہونے کی وجہ سے یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ جس کے باعث کافی بڑی تعداد میں لوگوں نے علاقے سے ہجرت کی۔

 

مقامی سماجی کارکنان نے شکایت کی ہے کہ انتظامیہ کی طرف سے ان کے فلاحی کاموں میں رکاوٹ پیدا کی گئی اور انھیں لوگوں کی مدد سے روکا گیا۔امداد اکھٹے کرنے کے لیے مقامی سماجی کارکن کے بینک اکاؤنٹ کو بھی  معطل کیا گیا۔میڈیا میں اس  پر رپورٹنگ بند ہونے کے بعد سرکاری اور غیرسرکاری دونوں تنظیموں نے اس مسئلے کو جوں کا توں چھوڑ دیا ہے۔

 

10 مئی 2022 کو میڈیا رپورٹ کے مطابق ہیضے کی وجہ سے پیرکوہ ڈیرہ بگٹی میں کم از کم 12 افراد کی اموات ہوئیں، جن کے نام درج ذیل ہیں:

 

1۔انور ولد باغی عمر دو سال

 

2۔خدیجہ ولد اکبر علی عمر آٹھ سال

 

3۔فرزانہ ولد نزیر احمد عمر دوسال

 

4۔ظفر علی ولد سخی محمد ،عمر دو سال

 

5۔نورخان ولد چَلو ،عمر دو سال

 

6۔ سعدیہ ولد بشیر احمد،عمردوسال

 

7۔میرزادی ولد بشیر احمد،عمر1سال

 

8۔ھنر بی بی ولد امیر جان،عمر دوسال

 

9۔ صاحب زادی زوجہ لیاقت ،عمر 75 سال

 

10۔صاخو زوجہ بری،عمر 65سال

 

11۔حضوربخش 65سال

 

12۔محمد بدل ولد رزاق ،عمر دوسال

 

 

☆☆☆

 

 

پی ڈی ایف اور ورڈ فائل ڈاؤنلوڈ کرنے کے لیے درج ذیل لنک پر جائیں :

 

 

https://www.thebnm.org/single-post/hr-report-may2022

یہ بھی پڑھیں

فیچرز