کوئٹہ(ہمگام نیوز)بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے گزشتہ سال 8 جون کو بلوچستان سے جبری طور پر گمشدہ افراد کی باحفاظت بازیابی کیلئے کوئٹہ میں ہونے والے پرامن احتجاج میں سیاسی و انسانی حقوق کے کارکنان کی شرکت کرنے پر ان کے خلاف ریاستی اداروں کے ایماء پر ایف آئی آر درج کرنے پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ریاستی اداروں کی ایماء پر پرامن آوازوں کو دبانے کی کوشش ایک المیہ ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب بلوچستان بھر سے طلباء، شاعر و ادیب، مزدور، آرٹسٹ الغرض کوئی بھی طبقہ محفوظ نہیں اور آئے دن ریاستی اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدگی کے واقعات میں سنگین اضافہ ہو رہا ہے ۔وہی دوسری جانب ان کی باحفاظت بازیابی کیلئے پرامن سیاسی احتجاج کرنے پر ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنا انتہائی مضحکہ خیز اور بلوچستان میں موجود حالات کی ابتری کی نشانی ہیں۔ اس طرح کے غیر قانونی و غیر آئینی اقدامات سے اس سوچ کو مزید تقویت مل رہی ہے کہ ملک میں سیاسی جدوجہد کے تمام راستے بند ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ پرامن احتجاج کا حق ریاست نے خود اپنے تمام شہریوں کو دی ہے لیکن بدقسمتی کا مقام ہے کہ ریاست اپنے آئین پر خود عمل کرنے کو تیار نہیں ہے۔ پرامن احتجاج کرنے والے سیاسی رہنماؤں اور انسانی حقوق کے کارکنان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنا اور انہیں اس معاملے سے دانستہ طور پر لاعلم رکھنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بلوچستان میں سیاسی جہد پر غیراعلانیہ پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس طرح کے اقدامات سے لوگوں کو مزید مایوسی کی جانب لے جایا جا رہا ہے۔ ریاست کے عدلیہ اور پارلیمنٹ نے جس طرح بلوچستان میں انسانی حقوق کے پامالیوں پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہے جس سے سنگین انسانی بحران جنم لے چکا ہے۔
ترجمان نے آخر میں حکومتی اداروں کے اس عمل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے تمام متعلقہ اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ بلوچستان میں ہونے والے غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات پر آنکھیں بند کرنے کے بجائے آئین و قانون کی پامالی کو روکنے میں کردار ادا کرے۔