برلن (پریس ریلیز) فری بلوچستان موومنٹ جرمنی برانچ کی جانب سے 10 دسمبر انٹرنیشنل ہیومن رائٹس ڈے کی مناسب سے بروز جمعہ دوپہر 2 بجے جرمنی کے دارالحکومت برلن کے مرکزی ریلوے اسٹیشن کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور ریلی بھی نکالی گئی جو مرکزی ریلوے اسٹیشن سے شروع ہوئی جو مختلف شاہراہوں سے ہوتے ہوئے جرمن پارلیمنٹ جا پہنچی۔
فری بلوچستان موومنٹ نے اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ فری بلوچستان موومنٹ نے اس احتجاج کو بلوچستان کی آزادی کے سلسلے میں اپنی بین الاقوامی سطح پر آگاہی مہم کے ایک حصے کے طور پر منظم کیا. ہر سال دس دسمبر کو انٹرنیشنل ہیومین رائٹس ڈے منایا جاتا ہے۔یہ دن اقوام متحدہ کی طرف سے عالمی سطح پر انسانی وقار برقرار رکھنے اور لوگوں میں حقوق انسانی کے حوالے سے بیداری پیدا کرنے کی غرض سے منایا جاتا ہے اور دنیا بھر میں یہ پیغام دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس زمین پر جنم لینے والا ہر انسان قابل عزت ہے اور اس کے ساتھ قومیت، جنس، نسل، ذات، رنگ، مذہب، اور زبان وغیرہ کی بنیاد پر کسی بھی قسم کی تفریق نہیں کی جا سکتی. غور طلب ہے کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 10دسمبر 1948کو ہی ’’ انسانی حقوق کا عالمی منشور ‘‘ منظور کیا تھا۔اس سلسلے کو برقرار رکھتے ہوئے فری بلوچستان موومنٹ دہشت گرد ریاست پاکستان اور ایرانی رجیم کے ہاتھوں کئی دہائیوں سے جاری بلوچ نسل کشی، ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں اور بلوچستان میں جاری فوجی آپریشنز سمیت ایران میں بلوچ ڈیموگرافی کی تبدیلی سمیت لامتناہی پھانسیوں کے سلسلے کی روک تھام کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھے گا.
مظاہرین نے بلوچستان میں جاری پاکستان و ایران کی بربریت کے خلاف شدید نعرے بازی کی، مظاہرین نے انٹرنیشنل ہیومن رائٹس ڈے کی مناسبت سے مختلف پلے کارڈز بھی اٹھا رکھے تھے جن پر ایران و پاکستان کی جانب سے مقبوضہ بلوچستان میں ظلم و جبر سمیت اقوام متحدہ کی خاموشی پر مختلف نعرے درج تھے. برلن کے مرکزی ریلوے اسٹیشن کے سامنے کچھ دیر احتجاج کرنے کے بعد مظاہرین نے جرمن پارلیمنٹ کی جانب مارچ کیا اس دوران مظاہرین پاکستان و ایران کی جانب سے مقبوضہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کے خلاف نعرے بازی کرتے رہے۔
مظاہرین سے محمد بلوچ، رضیہ درازئی، خُداداد بلوچ،بیبگر بلوچ اور بہزات بلوچ نے خطاب کیا۔ مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان و ایران مقبوضہ بلوچستان میں پچھلے کئی دہائیوں سے انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہیں۔ عالمی قوانین کے ہوتے ہوئے بلوچ نوجوان اور عورتیں جبری گُمشدگی کے شکار بنائے جارہے ہیں جو کئی سالوں سے پاکستان و ایران کے اذیت گاہوں میں انسانیت سوز تشدد کا سامنا کررہے ہیں مگر اقوام متحدہ سمیت دیگر ادارے بلوچستان پر ہونے والے مظالم پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں جو قابض ریاست ایران و پاکستان کی مزید حوصلہ افزائی کا سبب بن رہے ہیں۔
مقررین نے مزید کہا کہ بلوچوں کو معاشی طور پر ختم کرنے کے لئے ایران و پاکستان نے گولڈ سمتھ لائن پر باڑ لگا کر دونوں اطراف کی آمد و رفت کو مکمل طور پر بند کردیا ہے۔ فوجی جارحیت مقبوضہ بلوچستان میں بلا تعطل جاری ہے جس سے اب تک سینکڑوں بلوچ اپنی جان گنوا چُکے ہیں۔ پاکستان و ایران کے اس جبر سے عورتیں اور بچے تک محفوظ نہیں ہیں۔
مقررین نے اقوام متحدہ، یورپی یونین سمیت انسانی حقوق کے دیگر علمبرداروں سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ دنیا میں بسنے والے بلوچوں پر ہونے والے اس ظلم پر اپنی زُبان بندی ختم کریں اور پاکستان و ایران پر دباؤ ڈالیں تاکہ بلوچوں پر ہونے والے مظالم کو روکا جاسکے۔