پنجگور (ہمگام نیوز) ویب ڈیسک کی رپورٹ کے مطابق پنجگور ایک ماہ سے ایرانی سرحد بند ہونے کی وجہ سے ہزاروں افراد بیروزگار ہوکر نان شبینہ کے محتاج ہوگئے ہیں بچوں کی تعلیم متاثر سڑکوں پرسناٹا بازار ویران ہوکر رہ گیا ہے پنجگور میں 70 فیصد لوگ ایرانی سرحد سے تیل کا کاروبار کرکے اپنی معاشی ضروریات پوری کرتے ہیں جب سے بارڈر کو مختلف وجوہات کی بنا پر بند کردیا گیا ہے عوام کی بے چینی میِں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے ان کے لیے روزگار کے متبادل زرائع بھی نہیں جن سے وہ استفادہ کرکے اپنے معاشی ضروریات پوری کرسکیں پنجگور کے عوامی حلقوں نے چیدگی اور جیرک بارڈر پوائنٹس کی بندش پر شدید احتجاج کرتے ہوئے حکومت سے ایرانی سرحد کو عوام کے روزگار کے لیے کھولنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ چیدگی اور جیرک سے فوری روزگار کرنے دیا جائے گاڑیوں کی ری ویری فکشن کے نام پر عوام کو بھوکا مارنا انسانی حقوقِ کی خلاف ورزی ہے حکومت کو یہ معلوم ہے کہ پنجگور کے اکثریتی عوام بارڈر سے چھوٹے پیمانے پر روزگار کرکے اپنی ضروریات زندگی پوری کرتے ہیں اسکے باوجود وہ بارڈر پر دئیے گئے رعایتوں کو مختلف شرائط کی بھینٹ چڑھاکر جان بوجھ کر عوام کے لیے معاشی تنگیاں پیدا، کرنے میں مصروف ہیں انکا مذید کہنا ہے کہ بارڈر چند مخصوص افراد کے لیے نہیں بلکہ اس میں ہر فرد روزگار کرسکتا ہے گاڑیوں کی ری ویری فکشن کا مقصد اکثریتی عوام کو بارڈر کے روزگار سے بیدخل کرنا ہے اور اس سے عوام میں تفریق کی جارہی ہے ان کہنا ہے کہ ملک کے عوام میں تفریق کرنا آئین پاکستان کی نہ صرف خلاف ورزی ہے بلکہ اس سے بے چینی اور نفرتیں بھی بڑھیں گی حکومت کو چائیے کہ وہ بارڈر پر دیئے گئے رعایتوں سے ہر خاص وعام کو استفادہ کرنے دیں تاکہ جھونپڑی میں رہنے والا بھی ایک وقت کی روٹی کمانے کا قابل ہوسکے بارڈر اگر گاڑی رکھنے والوں کے لیے مخصوص ہے پھر جن کے پاس گاڑیاں نہیں کیا وہ ملکی سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کا اہل نہیں انہوں نے کہا کہ یہ مسلہ َخالصتا انسانی حقوق کا مسلہ ہے مخصوص شرائط سے آبادی کا ایک بڑا طبقہ بیروزگار ہوکر بھوک کا شکار بنے گا۔