سنجیدہ نوعیت کے دو تحقیقاتی رپورٹروں کی جانب سے تحریر کی جانے والی کتاب The Exile میں 2001 سے 2011 کے دوران ایران میں روپوش ہونے والے القاعدہ کے اراکین اور ایرانی پاسداران انقلاب کے ساتھ ان کے تعلقات کے بارے میں معلومات کا انکشاف کیا گیا ہے۔

کتاب کے دونوں مصنفوں کے نام Cathy Scott-Clark اور Adrian Levyہیں۔ برطانوی روزنامے “گارڈین” نے ہفتے کے روز کتاب کے بعض مندرجات شائع کیے ہیں جن کو عربی روزنامے “الشرق الاوسط” نے بھی نقل کیا ہے۔

کتاب میں بتایا گیا ہے کہ موریتانیہ سے تعلق رکھنے والے محفوظ ولد الوالد عُرف ابو حفص الموريتانی نے تقریبا دس برس تک القاعدہ تنظیم کی شریعہ کمیٹی کے سربراہ کے طور پر کام کیا۔ 11 ستمبر کے حملوں کے بعد افغانستان سے فرار ہونے پر محفوظ کو کسی پناہ گاہ کی ضرورت تھی۔ محفوظ نے ایرانی حکومت سے رابطہ کیا اور براہ راست “پاسداران انقلاب” کے ساتھ معاملات طے کیے۔ اس وعدے کے مقابل کہ القاعدہ ایران کو حملوں کو نشانہ نہیں بنائے گی.. ایران نے آمادگی کا عندیہ دے دیا۔ مارچ 2002 میں القاعدہ تنظیم کے بڑے رہ نماؤں اور بن لادن کے متعلقین کی بڑی تعداد نے ایران کا رخ کیا۔

گارڈین اخبار کے تبصرے کے مطابق القاعدہ کی قیادت کے استقبال کے نتیجے میں ایرانی گروپوں کے درمیان عدم اعتماد کی چنگاری پھیل گئی۔ انٹیلی جنس اور سکیورٹی کی ایرانی وزارت کے ذمے داران نے جب ملک مین القاعدہ کے رہ نماؤں کی پاکستان اور افغانستان میں اپنے متعلقین کے ساتھ ٹیلیفون کالوں کی نگرانی کی تو ایرانی سکیورٹی فورسز نے فوری طور پر ان رہ نماؤں کو گرفتار کر لیا اور ان میں سے بعض کو ان کے وطنوں کو واپس بھیج دیا۔ ان فیصلوں کو مات دینے کے واسطے “پاسداران انقلاب” نے القاعدہ کے ارکان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے ٹیلیفون استعمال نہ کریں۔

ایران کے بہت سے ناقدین یہ کہہ چکے ہیں کہ القاعدہ کے ساتھ ایران کے تعلقات معاندانہ نہیں تھے بلکہ بعض مرتبہ تو تعاون پر مبنی تھے۔

دوسری جانب امریکا کا کہنا تھا کہ ایران دہشت گردوں کو پناہ فراہم کر رہا ہے تاہم اس الزام سے بچنے کے لیے ایران نے ان دہشت گردوں کی گرفتاری کے اعلان میں ہی عافیت جانی۔ القاعدہ کے رہ نماؤں نے تہران کے شمال میں قُدس فورس کی ایک عمارت میں قیام کی۔ اس دوران بن لادن کے بعض متعلقین اسی عمارت کے ایک علاحدہ ونگ میں ٹھہرے جب کہ دوسرا گروپ دیگر محفوظ گھروں میں قیام پذیر ہوئے۔ ان کے علاوہ ایک گروپ کو بدترین جیلوں کا مزہ چکھنا پڑا جس کے نتیجے میں اس گروپ نے بھوک ہڑتال کر ڈالی۔ القاعدہ کے ان تمام اراکین کو کسی بھی وقت ایران سے کوچ کرنے کی اجازت تھی تاہم عراق میں امریکی افواج کے خلاف لڑائی میں حصہ لینا وہ واحد صورت تھی جس کے لیے کوچ کی اجازت نہیں تھی۔

 

ایران یہ جان چکا تھا کہ اس کی سرزمین پر موجود القاعدہ اراکین نہ صرف انٹیلی جنس معلومات حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں بلکہ سودے بازی کا آلہ بھی ہیں۔ تاہم ایرانی پاسداران انقلاب اور اس وقت کے نائب امریکی صدر ڈک چینی کے درمیان معلومات کے تبادلے کی خواہش نہ ہونے کے سبب یہ سودے بازی ممکن نہ ہو سکی۔ 2003ء میں عراق پر امریکی حملے کے بعد صورت حال تبدیل ہو گئی۔

عراق میں القاعدہ کی سرگرمیاں جاننے کی خواہش کے پیشِ نظر امریکی وزارت خارجہ ذمے دار رائن کروکر نے افغانستان کے لیے امریکی صدر کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زادہ کے ساتھ مل کر ایک مرتبہ پھر ایران کے قریب آنے کی کوشش کی۔ ایران نے اس مرتبہ زیادہ بڑی کوشش کرتے ہوئے ایک معاہدے کے ذریعے امریکا سے مطالبہ کیا کہ وہ عراق میں مقیم ایرانی نظام کی مخالف تنظیم “مجاہدین خلق” کے ارکان کو اس کے حوالے کرے۔ اس کے بدلے تہران القاعدہ کی مجلس شوری کی ارکان اور بن لادن کے خاندان کو امریکا کے سپرد کر دے گا۔ تاہم واشنگٹن نے اس معاہدے سے انکار کر دیا۔

شاید The Exile نامی کتاب میں سامنے آنے والی بعض تفصیلات متنازع ہیں تاہم ان میں بعض باتیں یقینی طور پر غلط ثابت ہوئیں۔ مثلا ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن کے بعد اسامہ بن لادن کے بیٹے حمزہ بن لادن کے پاکستان سے فرار ہو جانے والی بات پر نئی معلومات کی روشنی میں نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔

مبصرین کے مطابق کتاب کے دونوں مصنف القاعدہ کے سابق عناصر اور بن لادن کے خاندان کے افراد کے استفسار میں کامیاب رہے جنہوں نے طویل عرصے سے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔