استنبول (ہمگام نیوز) آو آئی سی کے استنبول میں ہونے والے اجلاس کے اختتام پر جاری ہونے والے اعلامیے میں ایران پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا کہ ایران نہ صرف خطے کے ممالک بلکہ بحرین، شام، یمن اور صومالیہ کے اندرونی معاملات میں بھی دخل اندازی کرتا ہے اور وہاں دہشت گردی کے جاری رہنے کا حامی ہے۔ واضح رہے کہ ایرانی صدر حسن روحانی اور وزیر خارجہ نے اس اختتامی اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ رواں ہفتے استنبول میں ہونے والی او آئی سی کے اجلاس میں 57 اسلامی ممالک کے سربراہان نے شرکت کی ۔ اس اجلاس میں شام میں انسانی بحران جیسے مسائل زیرِ غور تھے۔ کانفرنس میں ایران اور دیگر مسلمان ممالک کے درمیان تعاون پر مبنی تعلقات قائم کرنے اور ایک دوسرے کے خلاف فوج کے استعمال کی دھمکی سے گریز کرنے پر بھی زور دیا گیا۔ ترکی اور سعودی عرب، جن کے پاس تین سال تک او آئی سی کی صدارت ہے، وہ خود کو دولتِ اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم کے خلاف امریکی اتحاد کا حصہ ہیں۔یہ اتحاد شام کے صدر بشارالاسد کے بھی خلاف ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اس موقف نے اسلامی ممالک کو صدر اسد کے حامی ایران کو ایک عجیب صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔ یمن میں موجود حوثی نامی باغی گروہ کو بھی شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے اسلامی ملک ایران کی حمایت حاصل ہے۔ یہ گروپ سعودی حمایت کی حامل یمن فوج سے لڑ رہا ہے۔ اب تک اس جنگ میں 6000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور یہ لڑائی گذشتہ سال مارچ میں شروع ہوئی تھی۔ اگرچہ ترکی کے ایران کے ساتھ شام کے معاملے پر بہت زیادہ اختلافات ہیں لیکن اس کے باوجود دونوں ممالک کے سفارتی اور تجارتی تعلقات قائم ہیں۔ دوسری جانب سعودی عرب نے تہران کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کر دیے ہیں اور اسے لبنان، شام اور یمن میں تہران کی بڑھتی ہوئی مداخلت پر سخت تشویش ہے۔ او آئی سی کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے سے ایک روز پہلے ایرانی ٹی وی نے صدر حسن روحانی کا ایک بیان نشر کیا جس میں کہا گیا تھا کہ کانفرنس سے کوئی ایسا پیغام نہیں آنا چاہیے جو اسلامی ممالک کے درمیان تقسیم کو ہوا دے۔ اجلاس کے بعد ہونے والی اختتامی پریس کانفرنس میں ترک صدر رجب طیب اردوغان نے کہا تھا کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم اسلام کو تقسیم ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اسلامی ممالک کے رہنماؤں نے آرمینیا کی آذربائجان کے خلاف کارروائی کی بھی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ آرمینیا کی فوج کو بلا کسی شرط نگورنو قرہ باخ سے نکل جانا چاہیے۔