لندن ( ہمگام نیوز) ایران کے سرکاری نشریاتی ادارے کو سنیچر کے روز بظاہر اس وقت ہیک کر لیا گیا جب براہِ راست نیوز بلیٹن روک کر رہبر اعلیٰ کے خلاف پیغامات نشر کیے گئے۔
سکرین پر ایک ماسک دکھایا گیا اور اس کے بعد رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کی تصویر کے گرد شعلے نظر آئے۔
ہیکرز کے اس گروہ نے خود کا نام ’عدالتِ علی‘ بتایا۔ ایران میں مہسا امینی کی موت کے بعد احتجاجی مظاہروں کی ایک نئی لہر میں سکیورٹی فورسز سے جھڑپوں میں کم از کم تین مظاہرین ہلاک ہوئے ہیں۔
مہسا امینی کو تہران کی ’اخلاقی پولیس‘ نے مبینہ طور پر صحیح طرح بال نہ ڈھانپنے پر حراست میں لیا تھا۔ 22 سالہ ایرانی کرد خاتون کو حراست میں لیے جانے کے تین روز بعد 16 ستمبر کو ان کی وفات ہوئیان کی موت نے ملک میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کو جنم دیا ہے۔
سنیچر کو ٹی وی بلیٹن مقامی وقت کے مطابق قریب چھ بجے ہیک ہوا۔ اس دوران ایرانی رہبر اعلیٰ کی تصویر کے ساتھ ان کے چہرے پر بندوق کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے علاوہ مہسا امینی اور تین دیگر خواتین کی تصاویر دکھائی گئیں جو حالیہ مظاہروں میں ہلاک ہوئی ہیں۔
ایک موقع پر لکھا تھا کہ ’آپ ہمارے ساتھ اس میں شامل ہوں اور آواز اٹھائیں‘ جبکہ ایک دوسرے پیغام میں لکھا تھا کہ ’ہمارے نوجوانوں کا خون آپ کے ہاتھوں سہ بہہ رہا ہے۔‘
آیت اللہ علی خامنہ ای کے خلاف اس نوعیت کی بغاوت تاریخی اعتبار سے کم ہی دیکھی گئی ہے۔ وہ ایران کے طاقتور حکمران ہیں مگر مہسا امینی کی موت کے بعد لوگ کھلے عام ان کی مخالفت میں سامنے آئے ہیں۔
سنیچر کو سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز سامنے آئیں جن میں تہران کی ایک یونیورسٹی کی طالبات صدر ابراہیم رئیسی کے دورے کے دوران ’نکل جاؤ‘ کے نعرے لگا رہی ہیں۔اسی روز سنندج شہر میں دو لوگوں کی ہلاکت ہوئی۔ ایک مرد کو ان کی کار میں گولی ماری گئی جب انھوں نے ہارن بجا کر مظاہرین کی حمایت کی۔ جبکہ آن لائن ایک ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ مشہد میں ایک خاتون کو گردن میں گولی ماری گئی جس کے بعد وہ زمین پر بے ہوش پڑی ہیں۔
ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا کے مطابق سنندج میں ایک پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ انقلابیوں کے خلاف ایک گروہ نے ایک مرد کو ہلاک کر دیا ہے۔
جمعے کو ایران کی فارنزک میڈیسن آرگنائزیشن نے کہا کہ مہسا امینی کی موت دماغ کو آکسیجن کی سپلائی رکنے اور اس کے باعث متعدد اعضا غیر فعال ہونے کی وجہ سے ہوئی، نہ کہ سر پر چوٹوں کی وجہ سے جیسا کہ خاندان اور مظاہرین کا دعویٰ ہے۔
ادھر انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ مظاہروں کا آغاز 17 ستمبر کو ہوا اور اس کے بعد سے 150 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
متعدد شہروں میں مظاہرین کے حق میں دکانیں بند ہیں۔ تہران کے بازاروں میں مظاہرین نے پولیس کی چیک پوسٹوں پر آگ لگائی اور سکیورٹی اہلکاروں کو وہاں سے بھگا دیا۔
تہران کے بازار پہنچنے والے مظاہرین ایرانی رہنماؤں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں کیونکہ انھیں تاجروں کی بھی حمایت حاصل ہوئی ہے۔