سه شنبه, اپریل 22, 2025
Homeخبریںایران کےمقابلےکیلئے سعودی عرب اورمتحدہ امارات کو بااختیار بنایا جائے،؛امریکہ تجزیہ کار

ایران کےمقابلےکیلئے سعودی عرب اورمتحدہ امارات کو بااختیار بنایا جائے،؛امریکہ تجزیہ کار

( ھمگام ویب نیوز ) امریکہ میں ہڈسن انسٹیٹیوٹ کے مشرق وسطی امور کے ماہر و سینئر ترین تجزیہ کار مسٹر مائیکل پریجنٹ نے عرب خطہ خصوصا مشرق وسطی میں ایران کے منفی کردار اور عزائم پر اپنی ایک تحقیقی اسائنمٹ میں کہتے ہے۔ کہ’’ سابق امریکی صدر مسٹر باراک اوباما نے ایران پر عائد پابندیوں کے خاتمے کی صورت میں جو عدم توازن پیدا کیا تھا، امریکہ کو ایران پر اس توازن اور دباؤ کو دوبارہ بحال کرنا چاہیے۔ایران کے مرکزی بنک پر دوبارہ سخت پابندیاں عائد کی جانی چائیے۔ اور ایرانی معیشت پر مزید پابندیاں عائد کی جائیں ۔امریکی حکومت کو ایک مضبوط پوزیشن سے ایران سے مذاکرات کرنا ہوں گے۔ ٹرمپ حکومت کو سابقہ صدر باراک اوباما انتظامیہ کے کمزور موقف کی طرح بات چیت نہیں کرنی چاہیے‘‘ مسٹر مائیکل کہتے ہے کہ ایرا ن پر ضروری دباؤ بڑھانے کے لیے القدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کے علاوہ ، عصائب اہل الحق کے کمانڈر قیس الخزلی ، الحشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر ابو مہدی المہندس کے نام پابندیوں کا شکار افراد کی فہرست میں شامل کیئے جانا چائیے ، صرف یہی کافی نہیں بلکہ عراق اور شام میں ایران کی گماشتہ ملیشیاؤں کا اگر کوئی کمانڈر کسی امریکی فوجی کو قتل کرنے کی دھمکی دیتا ہے تو اس کا نام خود کار طریقے سے اس ممنوعہ فہرست میں آجانا چاہیے۔ امریکہ کے یہ تجزیہ کار ایرا ن کے ساتھ طے شدہ معاہدے سے امریکا کی علیحدگی کی وکالت اور دفاع کرتے ہیں ۔اس کے علاوہ انھوں نے یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ خطے کے اہم عرب ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو خطے میں بااختیار بنایا جائے جبکہ ایرانی شیعہ رجیم کو داخلی انارکی وجہ سے اپنے ہی عوام کے غیظ وغضب کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ وہ اپنے حالیہ عوامی احتجاجی مظاہروں میں برملا یہ کہہ چکے ہیں کہ ایرانی شیعہ ملا رجیم خطے میں شیعہ ملیشیاؤں کو مضبوط بنانے کے بجائے اپنی ملک کی معیشت پر توجہ مرکوز کرنا چائیے۔امریکی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بہت عرصے سے مشترکہ جامع لائحہ عمل کے نام سے اس سمجھوتے کے تحت ایران اپنے بیلسٹک میزائل پروگرام کوبھی بڑی تیزی سے چلا رہا ہے۔جس سے وہ اقتصادی اور روایتی فوجی طاقت بن سکتا ہے۔اگر ایران اسی طرح دھوکہ دہی کی راہ اختیار کرتے ہوئے اپنے ان عزائم میں کامیاب ہوجاتا ہے تو وہ اپنے جوہری ہتھیاروں کو ان میزائلوں سے منسلک بھی کرسکتا ہے۔ایران نے جو بھی تخریبی سرگرمیاں انجام دی ہیں ، وہ سب اسی سمجھوتے کی چھتری تلے ہی کی ہیں۔ایران نے امریکا کے ساتھ معاہدے کے تحت غیر منجمد ہونے والی اربوں ڈالرز کی رقوم سے پاسداران انقلاب کی القدس فورس کی پروردہ شیعہ ملیشیاؤں کو رقوم ادا کی ہیں اور نئی ملیشیائیں بھی تشکیل دی ہیں جن کو القدس فورس ہی کی جانب سے باقاعدہ تنخواہیں اور دیگر رقوم و مراعات ادا کی جارہی ہیں۔مائیکل پریجنٹ کا کہناہے کہ ’’ یہ ملیشیائیں اب عراقی سکیورٹی فورسز کا باقاعدہ قانونی حصہ بن چکی ہیں ۔اس کا یہ مطلب ہے کہ ہمیں قانونی طور پر اس ملک میں قانون کی خلاف ورزیوں پر امریکا کا فوجی امداد کا پروگرام ختم کردینا چاہیے۔اس کے تحت امریکا کے محکمہ خارجہ اور دفاع کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث غیرملکی سکیورٹی فورسز کے یونٹوں کو فوجی امداد مہیا کرنے کی ممانعت کردی گئی ہے‘‘۔
ان کے بقول :’’ ہمارے خیال میں خطے میں استحکام کو واپس لانے کے لیے دہشت گردی ، جارحیت اور انسانی حقوق کے مرکزی منبع کا راستہ روکا جانا چاہیے‘‘۔وہ سابق صدر براک اوباما کے دور حکومت میں ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری سمجھوتہ والی معاہدہ کو امریکا کے لیے تاریخ کا بدترین ڈیل قراردیتے ہیں کیونکہ اس سے ایرانی رجیم کو اعتماد حاصل ہوا اور اس نے زور شور سے اپنی اشتعال انگیز سرگرمیاں مزید تیز کردیں۔وہ شام میں بشارالاسد کی براہ راست پشت پناہی کررہا ہے اور روس کو بھی اس جنگ میں کھینچ کر لایا ہے ۔اس نے شام کے ساتھ اسلحے کی فروخت کے معاہدے کیئے اور روس سے فضائی دفاعی نظام خریدنے کے معاہدے کو آگے بڑھایا ہے۔ایران مشرقِ وسطیٰ کے خطے میں اپنی سرگرمیوں کی وجہ سے امریکا کے مفادات اور اسرائیل سمیت اس کے عرب اتحادیوں کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکا ہے۔

یہ بات ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے مشرقِ وسطیٰ امور کے سینیر تجزیہ کار مائیکل پریجنٹ نے ایک تجزیے میں کہی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ایران نے عراق میں شیعہ ملیشیاؤں ، لبنان میں حزب اللہ اور یمن میں حوثیوں کی حمایت جاری رکھی ہوئی ہے اور ان کی صلاحیتوں میں اس انداز میں اضافہ کروا رہا ہے کہ وہ پورے خطے کے استحکام اور سکیورٹی کے لیے بڑا خطرہ بن سکتے ہیں ۔اس تجزیہ کار نے بتایا کہ پاسداران انقلاب ایران کی القدس فورس نے سب سے پہلے عراق میں مداخلت کی تھی اور اس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی سربراہی میں تین بڑی شیعہ ملیشیاؤں عصائب اہل الحق ، کتائب حزب اللہ ، النجباء تحریک کو منظم اور مضبوط کیا گیا تھا ۔یاد رہے ایرانی حکومت شیعہ ملا رجیم جدید دنیا سے یکسر الگ تھلگ اپنے رجعت پسندانہ شیعہ مزہبی خیالات کی روح سے یہ سمجھتی ہے کہ اصل میں انھیں امریکہ و مغربی ممالک کی طرح پوری دنیا پر حکمرانی کرنا چائیے۔ جس کیلئے وہ ہر خطے میں اپنے پراکسیز کو پیدا کرکے کمک دے رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز