کوئٹہ (ہمگام نیوز)بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ عبد المالک بلوچ نے کہاہے کہ براہمداغ بگٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیا ن مصالحت کے امکانات روشن ہیں ٗ گوادر پورٹ کا اختیار صوبائی حکومت کو ملناچاہیے ٗ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے ٗحل بھی سیاسی انداز میں تلاش کیا جاسکتا ہے ٗڈاکٹر اللہ نذر کے زندہ ہونے یا نہ ہونے سے متعلق کوئی معلومات نہیں۔ ایک انٹرویو میں ڈاکٹر عبد المالک نے کہاکہ گوادر پورٹ کا اختیار صوبائی حکومت کو ملنا چاہئے گوادر کے بغیر اقتصادی راہداری منصوبہ نامکمل ہے،وفاق سے کسی چیز پر سمجھوتہ نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ میں نے کوشش کی کہ اپنے دور اقتدار میں جمہوری حکومت کے ثمرات عوام تک پہنچا سکیں ،حکومت ہم نے مشکل حالات میں گزاری ،نہ کبھی خود کھایا نہ کبھی پارٹی کو کھلایا تاہم اتنا ضرور ہے کہ ہم نے اپنی پارٹی کو چاروں صوبہ تک وسعت دی ،ڈھائی سالہ دور اقتدار میں اپنے دفتر کو عوامی دفتر بناکر رکھا۔ ڈکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہ اکہ نئے وزیراعلیٰ کیساتھ ایک پیج پر تھے اور رہیں گے، ہم الزامات کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے ہم نے کرپشن کے خاتمہ کیلئے ہرممکن اقدامات اٹھائے جس بناء پر کرپشن میں کمی آئی،جب تک کرپشن کو کنٹرول نہیں کیا جاتا اس وقت تک عام آدمی کی طرز زندگی کو بہتر نہیں بنایا جاسکتا ۔انہوں نے کہا کہ ڈھائی سال تک میرے بیٹوں نے کسی افسر یا کو فون نہیں کیا میرا ایک بھائی پیدل جبکہ دوسرا بھائی موٹرسائیکل پر سفر کرتا ہے۔عہدوں کے حقدار وہ لوگ ہیں جو سیاست میں حصہ دارہوں ہماری پارٹی میں عہدوں کے تمام فیصلے میرٹ کی بنیاد پر ہوتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ خان آف قلات سے ہونیوالی ملاقاتوں میں انہوں نے کوئی مطالبہ نہیں رکھا تاہم نوابزادہ براہمدغ بگٹی سے ملاقاتیں ہوئی ہیں جس میں ہم نے ان کے سامنے دومطالبے رکھے کہ وہ پاکستان کے آئین کو مانیں اور دوسرا ملک کی سیکورٹی کو چیلنج نہ کریں 70 کی دہائی میں ہونے والی مزاحمت کے بعد بھی مذاکرات کا عمل شروع ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم بلوچ کو جانتے ہیں یہی وجہ تھی کہ ہم نے پرامن بلوچستان کیلئے کوئی ایسا عمل نہیں کیا جس سے مذاکراتی عمل کو نقصان پہنچے مذاکرتی عمل کے تحفظ کیلئے اسے پوشیدہ رکھا گیا۔ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اور اس کا حل بھی سیاسی انداز میں تلاش کیا جاسکتا ہے ،ہم نے کوشش کی کہ بلوچستان کو امن کی راہ پر گامزن کیا جاسکے ۔ میں نے ان سے یہی کہا ہے کہ وہ نواب محمد اکبر خان بگٹی کی سیاست کو لیکر آگے چلیں، کیونکہ نواب محمد اکبر خان بگٹی کبھی اس رخ نہیں جانا چاہتے تھے ،تاہم انہیں مجبور کر دیا گیا۔ نوابزادہ براہمدغ بگٹی سے ہونیوالی ملاقاتوں سے متعلق وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف اور عسکری قیادت آگاہ تھی، ہم نے وفاق اور عسکری قیادت کی مشاورت سے پیشرفت کی، نوابزادہ براہمدغ بگٹی نے ملاقاتوں میں جو مطالبات رکھے وہ سیاسی ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ریاست اور نوابزادہ بگٹی کے مابین صلح کے امکانات موجود ہیں۔ ناراض بلوچ رہنما?ں میں نوابزادہ براہمدغ بگٹی نے سب سے زیادہ لچک کا مظاہرہ کیا اور اس وقت وہ سب سے زیادہ اثرورسوخ رکھتے ہیں۔اْنہوں نے کہا کہ ہم نے وفاق کیساتھ کسی بھی معاملے پر سمجھوتہ نہیں کیا اور نہ ہی وفاق کی جانب سے سمجھوتہ کرنے کو کہا گیا ریکوڈک کا معاملہ ہو یا پھر گوادر کی ڈیڑھ لاکھ اراضی کی منسوخی ہم نے بلوچستان کے مفاد میں کام کیا ، البتہ اتنا ضرور ہے اگر انفراسٹکچر پر ماضی میں ایمانداری سے کام کیا جاتا تو آج بلوچستان کا نقشہ مختلف ہوتا ۔انہوں نے کہا کہ ہم ہمیشہ سے بلوچستان کے حقوق کی بات کرتے ہوئے آئے ہیں ،گوادر پورٹ کا اختیار بھی بلوچستان حکومت کو ملنا چاہئے، گوادر کے بغیر اقتصادی راہداری کا منصوبہ نامکمل ہے اور اس معاہدے کا سب سے زیادہ فائدہ بھی بلوچستان اور کے پی کے کو حاصل ہونا چاہئے۔ اب تک ان منصوبہ پرجو کام ہوا ہے اس کے فوائد حاصل ہورہے ہیں تاہم اس مسئلہ کو سیاسی رنگ دیا جارہا تھا۔ڈکٹر عبدالمالک بلوچ کا کہنا تھا کہ بہت سی مشکل چیزوں میں پیشرفت کی ہے جس میں واضع طورپر ناراض بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات کا عمل ہے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب کوئی مذاکرات کیلئے تیار نہیں تھا اب وہ بات چیت کیلئے تیار ہیں اور اس عمل کو آگے لے جانا ہماری ذمہ داری ہے ۔ڈاکٹر اللہ نذر سے براہ راست کوئی ملاقات نہیں ہوئی تاہم ان کے دوستوں سے ملاقاتیں ہوئی ہیں اور ہم نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ 21 ویں صدی بندوق کی صدی نہیں ہے۔اْن کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر اللہ نذر کے زندہ ہونے یا نہ ہونے سے متعلق کوئی معلومات نہیں ہیں۔