عالمی اصولوں کے مطابق آئی ڈی پیز (انٹرنلی ڈسپلیسڈ پرسنز) وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں ان کے مرضی کے برخلاف بزور قوت یا انکے علاقے سے بیدخل کیا جائے یا وہ کسی جنگ کی صورت میں بحالتِ مجبوری علاقہ بدر ہوجائیں لیکن وہ عالمی طور پر تسلیم شدہ اپنے ملکی سرحدوں سے باہر نہیں نکلے ہوں ۔ رفیوجی اور آئی ڈی پیز میں فرق یہی ہوتا ہے کہ رفیوجی اپنے سرحدوں سے نکل کر کسی اور ملک میں پناہ لینے والا ہوتا ہے اور آئی ڈی پیز اپنے وطن میں ہی بے گھر لوگوں کو کہتے ہیں ۔اس وقت دنیا کے تقریباً 52 ممالک میں ڈھائی کروڑ سے زائد لوگ آئی ڈی پیز کے حیثیت سے در بدر ہیں جن میں زیادہ تر کی تعداد افریقہ میں ہے۔ریفیوجی کے برعکس آئی ڈی پیز کیلئے ابتک کوئی عالمی سطح پر تعریف ترتیب نہیں دی گئی ہے تاہم اس بابت Guiding principles on internal displacement کچھ اصول وضع کرتا ہے جن کے مطابق ’’ آئی ڈی پیز وہ لوگ یا گروہ ہیں جنہیں کسی مسلح تصادم ، تشدد، انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کی وجہ سے مجبور کیا گیا ہو کہ وہ اپنے گھربار چھوڑ کرکسی اور علاقے میں منتقل ہوجائیں لیکن انہوں نے کوئی عالمی سرحد پار نہیں کیا ہوا ہو ‘‘۔ بلوچستا ن میں پاکستانی قبضے کے پہلے دن سے لیکر آج تک شدید قسم کے آپریشن وقتاً فوقتاً ہوتے رہے ہیں جن سے سب سے زیادہ شدید بمباریوں ، بے گناہوں پر بلا اشتعال فائرنگ ، اغواء اور قتل کی وجہ سے عام بلوچ آبادیاں متاثر ہوئی ہیں ، جس کی وجہ سے بلوچ بڑی تعداد میں اپنا گھر بار چھوڑ کر ایک طرف ریفیوجی کی حیثیت سے افغانستان ، ایران، خلیج اوریورپ منتقل ہونے پر مجبور ہوئے ہیں اور دوسری طرف بلوچستان کے مختلف علاقوں میں آئی ڈی پیز کے حیثیت سے مجبوراً پناہ لیئے ہوئے ہیں۔ 1973 کے وسیع پیمانے کے پاکستانی فوجی آپریشن جس میں ہزاروں کی تعداد میں بلوچوں کی شہادت ہوئی تھی نے کئی ہزار بلوچ گھرانوں کو مجبور کیا کہ وہ اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑ کر سندھ ، پنجاب ، افغانستان اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پناہ لیں ۔ طویل تاریخی جبر اور قومی غلامی کے خلاف جب بلوچوں نے ایک بار پھر اکیسویں صدی کے پہلے دہائی کے اوائل میں دوبارہ جدوجہد شروع کی تو قابض ریاست پاکستان کی جانب سے ایک بار پھر ظلم و جبر کا بازار گرم ہوگیا ، عام بلوچوں کو روز گھر گھر تلاشی کے بہانے حراساں کرنا ، ماورائے قانون گرفتاریاں و گمشدگیاں ، سول آبادیوں پر بلا اشتعال بمباری اور شیلنگ روز کا معمول بن گیا جس کی وجہ سے اوائل کے دنوں میں بلوچستان کے علاقے کوہلو کاہان اور ڈیرہ بگٹی سے ہزاروں کی تعداد میں بلوچ اپنے گھر بار چھوڑ کر سندھ اور پنجاب سمیت افغانستان کے مختلف علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ ان میں سے کئی گھرانے دس دس سال گذرنے کے باوجود اپنے آبائی علاقوں کی طرف واپس نہیں جاسکتے اور آج تک انتہائی کسمپرسی کے عالم میں زندگی گذار رہے ہیں ۔ ابتداء میں پاکستانی فوج کے آپریشنوں کا دائرہ کار زیادہ تر بلوچستان کے دیہی علاقوں تک تھا اور نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد بھی انہی علاقوں سے تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان فوج نے عام شہریوں کے قتل عام کا سلسلہ بلوچستان کے بڑے شہروں کوئٹہ ، خضدار اور پنجگور منتقل کردیا جہاں آئے روز کے جبری اغواء اور عام شہریوں و سیاسی کارکنوں کے ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے ان شہروں کے آدھے سے زائد آبادیاں اپنے گھر بار اور شہر چھوڑ کر مختلف علاقوں میں آباد ہونے پر مجبور ہوئے ۔ اب جیسے جیسے پاکستان چین کے اشتراک سے گوادر پورٹ کے تکمیل کی طرف بڑھ رہا ہے ویسے ویسے بلوچستان میں مکران کے علاقے کے مختلف قصبوں اور شہروں میں آپریشنوں کا سلسلہ بھی تیز ہوتا جارہا ہے ، گذشتہ دو سال کے دوران بلوچستان کے علاقے مکران کے کم و بیش تمام کے تمام شہروں اور قصبوں کو پاکستانی فوج ایک سے زائد بار گھیر کر ہیلی کاپٹروں سے بلا اشتعال بمباری کر کے بیگناہوں کو ماورائے قانون اغواء کرکے لاپتہ کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا جن میں سے اکثر لاپتہ افراد کی بعد میں صرف مسخ شدہ لاشیں اجتماعی قبروں سے ملتی ہیں ۔ لوگوں کے گھروں پر آتش گیر مادہ چھڑک کر انہیں جلا کر خاکستر کیا جاتا ہے ، گھروں سے قیمتی مال و اسباب لوٹ لیا جاتا ہے حتیٰ کے مال و مویشی تک پر اندھا دھند فائرنگ کرکے انہیں ہلاک کیا جاتا ہے تاکہ معاشی حوالے سے بلوچ تنگ دست ہوکر مجبور ہوکر ان علاقوں کو چھوڑ دیں ۔ آپریشن در آپریشنوں کے وجہ سے اس وقت مکران اور آوران کے مختلف علاقوں جن میں خاص طور پر شاپک ، ہیرونک ، پیدارک ، مند ، تربت ، دشت ، ہوشاب ، جاو ، کھوڑو ، گشکور ، ڈنڈار ، کلانچ ، پسنی ، گوادر ، تمپ ،پنجگور اور مشکے کے مختلف علاقوں سے بہت بڑی تعداد میں عام بلوچ آبادیاں نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں ، اس وقت ان علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کے تعداد ہزاروں میں ہیں ، زیادہ تر لوگ نقل مکانی کرکے سندھ اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں آباد ہورہے ہیں ۔ عالمی قوانین کے مطابق خاص طور پر 1998 میں بنائے گئے The Guiding Principles on Internal Displacement کے مطابق آئی ڈی پیز کو معاشی ، سماجی ، ثقافتی ، شہری اور سیاسی حوالے سے ہر قسم کے حقوق حاصل ہوتے ہیں اور ان آئی ڈی پیز کیلئے پناہ گاہ ، ادویات اور خواراک کا ذمہ دار بھی وہی ملک ہوتا ہے ۔اسکے علاوہ یہ بھی حکام کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ جلد از جلد آئی ڈی پیز کی واپسی ممکن بنائے اور دوبارہ زندگی شروع کرنے کیلئے انکی مالی اعانت بھی کریں۔ انہی قوانین کے مطابق آئی ڈی پیز کی ذمہ داری اسی مطلقہ ملک کی ہی ہوتی ہے لیکن بلوچستان میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں لوگ ریاست کے ہاتھوں ایک خاص منصوبے کے تحت ہی علاقہ بدر کیئے جارہے ہیں ، حتیٰ کے جو لوگ نقل مکانی کرتے ہوئے آج خاص طور پر اندرونی سندھ ، کراچی وندر اور حب میں آباد ہیں پاکستانی خفیہ ادارے اور آرمی ان بلوچوں کو بھی شہید کرنے اور بڑی تعداد میں اغواء کرکے لاپتہ کرنے کا مرتکب ہورہا ہے یعنی ان آئی ڈی پیز کو نقل مکانی کے باوجود بھی قابض ریاست پاکستان کے ظلم و بربریت کا سامنا ہے اور ساتھ ساتھ وہ اپنے ان تمام حقوق و مراعات سے بھی محروم ہیں جنہیں انسانی حقوق کے عالمی قوانین کے رو سے حاصل ہے ، آئی ڈی پیز کے علاوہ بلوچ ریفیوجی جو زیادہ تر افغانستان میں آباد ہیں پاکستانی خفیہ ادرے اپنے پراکسی دہشتگردوں کے ذریعے آئے روز ان پر حملے کروارہے ہیں جس کی وجہ سے ایک درجن سے زائد بلوچ ریفیوجی شہید اور درجنوں زخمی ہوچکے ہیں۔ ایک طرف پاکستان کا آئی ڈی پیز کے خلاف کریک ڈاون اور دوسری طرف ابتک کوئی بھی ایسا عالمی ادارہ تشکیل نہیں دیا گیا ہے جو آئی ڈی پیز کی معاونت کریں اقوم متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ایچ سی آر جس کی ذمہ داری ریفیوجیوں کے مسائل حل کرنا ہے اس بات پر راضی نہیں رہا ہے کہ آئی ڈی پیز کی بھی مدد کرے لیکن 1972 کے بعد سے وہ سیکریٹری جنرل کے خصوصی درخواست پر بہت سے ممالک میں آئی ڈی پیز کی معاونت میں اب شامل ہے ۔لیکن ان دگرگوں حالات کے باوجود ان عالمی اداروں کے طرف سے نا بلوچ ریفیوجیوں کو امداد حاصل ہوسکی اور نا ہی بلوچ آئی ڈی پیز کبھی ان اداروں سے استفادہ حاصل کرسکے لیکن بلوچستان کے مزید ابتر ہوتے صورتحال کے پیش نظر آئی ڈی پیز کے تعداد میں روز افزوں اضافہ اور آئی ڈی پیز پر پاکستانی ایجنسیوں کی جبر کے بعد اب یہ انتہائی ضروری ہوچکا ہے کہ یو این ایچ سی آر بلوچ آئی ڈی پیز کیلئے خصوصی اقدامات کرے اور انہیں پاکستانی جبر سے بچانے کے ساتھ ساتھ انکے واپسی کیلئے عملی اقدامات اٹھائیں ۔