بلوچستان میں چینی اسلحہ ، عربی پیسے اور پاکستانی فوج کی دہشت گردی ہمگام اداریہ وکی لیکس نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت ہر سال کم از کم 100 ملین ڈالر کا رقم خیرات و چندوں کی صورت میں پاکستانی دہشتگرد تنظیموں کو دیتے ہیں ، جس سے یہ دہشتگرد تنظیمیں فائدہ اٹھاتے ہوئے خاص طور پر جنوبی پنجاب سے بھرتیاں کرتے ہیں ، ان انکشافات میں مزید یہ کہا گیا ہے کہ ’’ دہشتگرد آٹھ سال تک کے بچے بھی بھرتی کرتے ہیں جنہیں بعد ازاں باہری دنیا سے کاٹ کر کم عمری میں ہی انکی تربیت شروع کیا جاتا ہے ، غربت اور زیادہ بچوں کی وجہ سے لوگ اپنے بچوں کو پال نہیں سکتے اسلئے وہ بھی پیسوں اور بچوں کے مفت ضروریاتِ زندگی کی خاطر انہیں ان خیراتی اداروں کے بھیس میں چھپے دہشتگرد تنظیموں کے حوالے کرتے ہیں ، یہ رقم سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے خیراتی اداروں اور چندوں کی صورت میں پاکستان منتقل ہوتا ہے ، جہاں یہ دہشتگرد تنظیم دور افتادہ اور غربت زدہ علاقوں میں مسجد اور مدارس تعمیر کرتے ہیں ، جہاں غربت سے تنگ لوگ اپنے بچوں کو داخل کراتے ہیں ، کم عمری میں ہی بچوں کے ذہن میں مقدس جنگ کا فلسفہ ٹھونس کر انہیں ٹریننگ کیمپ بھیج دیئے جاتے ہیں ، سعودی عرب اپنے طرز کے وہابی اسلام کی ترویج انہی دہشگرد تنظیموں کی مدد سے مدرسوں کی جدید نیٹ ورک کی صورت میں کررہا ہے جس سے دہشت گردی جنم لے رہی ہے‘‘۔ مذکورہ باتیں شاید مغربی اقوام کیلئے انکشافات ہوں لیکن اس خطے میں موجود لوگ دہائیوں سے اس عمل کو اپنے آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھتے آرہے ہیں ، یہ اب ہر گز ایک راز نہیں رہا ہے کہ دور افتادہ علاقوں میں جہاں حکومت کے اسکول تک نہیں ہوتے وہاں عالیشان مسجدوں اور وسیع و عریض مدرسوں پھر مدرسے کے طلباکے خرچوں کی رقم کہاں سے آتی رہی ہے اور نا ہی یہ امر کسی کے آنکھوں سے پوشیدہ ہے کہ عرصہ دراز سے یہی مدرسے نابالغ بچوں کے ذہن میں دہشت گردانہ عزائم کا زہر گھول کر انہیں جہاد (دہشتگردی ) کیلئے کشمیر و افغانستان بھیجتے آرہے ہیں ، اس پورے عمل میں پاکستانی فوج اور اسکے خفیہ اداروں کی مکمل رغبت و رضا شامل رہی ہے تبھی اپنے ناک کے نیچے ہونے والے اس عمل کو وہ نظر انداز کرنے میں کامیاب رہا ہے ، شاید وہ دن بھی زیادہ دور نہیں جب یہ حقائق بھی سامنے آجائیں کے پاکستان فوج و خفیہ اداروں کے اس نظر اندازی کے پیچھے اصل میں وہ بھاری رقوم ہوتے ہیں جو مذکورہ ممالک سے انہیں اسلامی برادر ملک کے نام نہاد نعروں کے آڑ میں فراہم کی جاتی رہی ہے۔پنجاب میں مذہبی شدت پسند ی کے رجحانات کسی بھی اور علاقے سے کئی گنا زیادہ ہیں اس لیئے وہ ان مدرسوں اور اور دہشت گردوں کے بھرتی کیلئے بہترین جگہ تصور کی جاتی رہی ہے ، انہی مدرسوں کے طفیل ہمیں ’’ پنجابی طالبان ‘‘ کا اصطلاح بھی سنائی دیتا ہے۔ یہاں حیرت انگیز بات یہ بھی سامنے آتی ہے کہ جہاں پاکستان طالبان اور دہشت گرد مٹانے کے نام پر پختونوں پر بلا امتیاز بمباری اور انکے علاقوں کو تہس نہس کرتے آئے ہیں وہیں یہ پنجابی طالبان ہمیشہ سے پاکستانی فوج کی طرف سے خاص رعایت کے مستحق رہے ہیں حتیٰ کے آج جب پاکستان ضربِ عضب کے نام پر پوری دنیا سے پیسے بٹورنے میں مشغول ہے وہیں یہ پنجابی طالبان اور انکے سربراہان پنجاب میں بلا خوف و خطر کھلے عام گھومتے ہیں حتیٰ کے انکے مسلح کمانڈران جن کے سروں پر لاکھوں کا انعام ہے وہ بھی حال ہی میں اپنے گھروں میں سکون سے رہتے ہوئے پائے گئے ہیں۔ اس کے وجوہات بیان کرتے ہوئے بی بی سی کے رپورٹر اوین بینیٹ کہتے ہیں کہ پاکستان ان پنجابی طالبان کو اپنا اثاثہ سمجھتا ہے کیونکہ ایک طرف یہ کشمیر میں جہاد کے نام پر بھارت میں در اندازی کرکے دہشتگردانہ کاروائیاں کرتے ہیں اور دوسری طرف حقانی نیٹ ورک کی صورت میں افغان حکومت کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔ اسی ضمن میں بلوچ آزادی پسند تنظیموں کا یہ موقف بھی قابلِ غور ہے کہ اب پاکستان اپنے ان دہشت گردانہ عزائم کو بلوچستان میں دہرانا چاہ رہا ہے ، ایک سیکیولر قوم ہونے اور لبرل اقدار کی وجہ سے بلوچ قوم ہمیشہ سے مذہبی شدت پسند نظریات سے خود کو بچانے میں کامیاب رہا ہے اور اعتدال پسندی و مذہبی رواداری کے فلسفے پر عمل پیرا رہا ہے لیکن جنوبی پنجاب کی طرح اب پاکستانی فوج یہاں ایک منصوبے کے تحت پہلے مرحلے میں ان پنجابی طالبان کو لشکری جھنگوی اور جماعت الدعوۃکی صورت میں بلوچستان منتقل کرکے انہیں یہاں محفوظ پناہ گاہیں مہیا کررہا ہے ، اسکے ساتھ ہی اسکولوں اور کالجوں کو روز بروز بند کرکے بلوچستان کے طول و عرض میں مدارس کا جال بچھایا جارہا ہے ، اب یہ یقینی امر ہے کہ تعلیمی ادارے نا ہونے اور پسماندگی کی وجہ سے عام بلوچ مجبوراً اپنے بچوں کو انہی مدارس میں داخل کرایں گے ، اسی منصوبے کے دوسرے مرحلے میں پاکستان ان مذہبی شدت پسندوں کو روشن فکر بلوچ آزادی پسندوں کے خلاف ایک محاذ کے طور پر بھی استعمال کررہاہے ، پاکستانی فوج اپنے پراکسی سرداروں و میروں جیسے کے ثناء اللہ زہری ، سراج رئیسانی ، شفییق مینگل ، برکت محمد حسنی وغیرہ کے سربراہی میں پنجاب سے درآمد کیئے گئے ان شدت پسندوں کے ڈیتھ اسکواڈ بناچکی ہے جو بلوچ آزادی پسند سیاسی کارکنان کو اغواء اور قتل میں تندہی کے ساتھ مصروفِ عمل ہیں۔ ایک طرف پاکستان ان دہشت گرد گروہوں کو عسکری حوالے سے استعمال کررہا ہے تو دوسری طرف پر امن بلوچ آزادی پسند سیاسی کارکنان کے بے دریغ قتل عام کے بعد بلوچستان میں ایک سیاسی خلاء پیدا کیا گیا ہے جسے پاکستان ان مذہبی شدت پسندوں کے ذریعے پْر کرنے کا عزم رکھتا ہے اور بلوچستان کا سیاسی کردار بھی انہیں سونپنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ جماعت الدعوۃاور جماعت اسلامی جیسے شدت پسند تنظیموں اور انکے خیراتی اداروں فلاح انسانیت فاونڈیشن اور خدمت خلق فاونڈیشن کو بلوچستان میں کھلی چھوٹ دی گئی ہے، ان کے توسط سے یہ غربت زدہ بلوچوں کو لشکرِ طیبہ جیسے دہشتگرد تنظیموں میں بھرتی کرنے کیلئے متحرک ہیں۔ اسی کی ایک مثال ہمیں گذشتہ سال بلوچستان کے علاقوں آواران اور مشکے میں زلزلے کے بعد دیکھنے کو ملا جب پاکستان نے وہاں نہ بلوچ تنظیموں کو کام کرنے کی اجازت دی اور نہ ہی کسی بھی عالمی ادارے کو وہاں داخل ہونے دیا لیکن وہاں حافظ سعید کی لشکر طیبہ فلاحِ انسانیت فاونڈیشن کے نام سے فوجی سیکیورٹی اور گاڈیوں میں نام نہاد فلاحی کاموں میں متحرک نظر آئی۔ بلوچ آزادی پسندوں کے خلاف ان پاکستانی پراکسی دہشتگرد تنظیموں کی محاذ آرائی ایک طرف اور دوسری طرف یہ تنظیمیں بلوچستان کے صدیوں پر محیط مذہبی رواداری کو بھی پراگندہ کررہے ہیں۔ یہی تنظیمیں پاکستانی فوج کے حصار کے اندر کوئٹہ میں شیعہ و ہزارہ برادری کے قتل عام ، ذکری بلوچوں کے خلاف متعدد حملوں اور ہندو برادری کے اغواء میں ملوث رہے ہیں۔ بلوچ دانشور اور تجزیہ نگاروں کے مطابق اگر مغربی اقوام دہشت گردی کو بنیاد سے ختم کرنے میں سنجیدہ ہیں تو پھر انہیں اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ انکے ٹیکس کا پیسہ پاکستان جیسے شدت پسند ملک کو امداد کی صورت میں نا ملے اور ساتھ میں انہیں اس خطے میں بلوچ کی صورت میں اپنے فطری روشن خیال اتحادیوں کو مضبوط کرنا ہوگا ورنہ پاکستان عرب ممالک کے پیسے ، چین کے اسلحہ اور اپنی فوج کی مدد سے بلوچستان کو ایک اور شام ، عراق یا افغانستان بنانے میں کامیاب ہوجائے گا جس سے نا صرف بلوچ جیسے اعتدال پسند قوم کی بقا بلکہ مغربی اقوام کی سالمیت بھی خطرے میں پڑ جائیں گے۔