پاکستانی فوج نے اپنے مفادات اور افغان قوم سے دشمنی کی وجہ سے ریاستی سطح پر ہمیشہ سے افغانستان میں مداخلت کرتی آرہی ہے۔ جس کیلئے انھوں نے اپنے پروکسیز کو مذہب کے مقدس نام پر تربیت دے کر مسلح کرکے ان کو ہر وقت بدامنی کیلئے کام میں لاتا رہا ہے ۔اب جب دیکھا جائے تو افغانستان میں پچھلے 16 سالوں سے امریکی حکومت اور نیٹو کثیر رقوم خرچ کیے ہوئے ہیں۔مزید یہ کہ وہ اپنے قیمتی فوجی جوانوں کی زندگی کی قربانی بھی دیتے آرہے ہیں۔اور یہی عالمی طاقتیں افغانستان میں افغان عوام اور حکومت کی خواہش پر وہاں دیرپا امن اور ترقی و خوشحالی کیلئے مسلسل اپنی کوشش جاری رکھ کر افغان حکومت کے ساتھ مشترکہ کام کرکے ان کی مدد کررہی ہیں۔ اور ترقی و امن کا یہ سفر پاکستانی فوج کو کسی بھی قیمت پر ہر گز قبول نہیں۔!
جب کہ وہاں امن و ترقی کیلئے امریکہ نے پاکستانی فوج اور ریاست کو بلین ڈالرز فراہم کرتا آ رہا ہے ۔اتنے کثیر امدادکے باوجود پاکستان ان کے ساتھ ڈبل گیم کھیل رہا ہے ۔لیکن اب یہ عالمی طاقتیں اس خطے میں بلوچ لیڈر شپ کی پاکستان کے بارے میں ان خدشات کی تصدیق کرتے ہوئے جنھیں وہ پچھلے 16 سالوں سے مسلسل یہ کہتے آرہے ہیں۔کہ خطے میں بدامنی کی اہم وجہ ریاست پاکستان کی وہ پالیسیز ہیں۔جن کو آئی ایس آئی اور فوج نے جاری رکھا ہوا ہے۔عالمی طاقتیں اس خطے کے بارے میں بلوچ لیڈر شپ کے خدشات و تعفظات کے عین مطابق پاکستان کی ان بہیمانہ حرکات کو پوری طرح سے سمجھ چکے ہیں ۔جس کے پیش نظر امریکہ اور نیٹو اپنی پالیسیز کو بدل کر اب یہ اعلان کرچکے ہیں ۔کہ وہ پاکستان کو مزید فوجی امداد فراہم نہیں کرسکتے۔
اس کے ساتھ ہی وہ پاکستانی فوج کے ان پروکسیز کو جو کہ مذہب کے مقدس نام کو اپنی ریاستی مفادات کی خاطر استعمال کرتے آرہے ہیں۔اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ ان کو ہر حالات میں ختم کیا جائے۔اس کے علاوہ ان کے لیئے کوئی چارہ باقی نہیں رہا ۔!
اب ان افغان طالبان حقانی نیٹورک، پشاور شوری ،کوئٹہ شوری کے پاکستان میں ان کمین گاہوں جن سے ان کی لیڈرشپ کو معاشی ،لاجسٹک،فیملی کے ساتھ رہائش کرنے کی کمک وغیرہ فراہم کیا جاتا ہیں۔ اب انھیں براہ راست امریکہ و نیٹو نے ان پر حملہ کرکے ان کو ختم کرنے کی باقاعدہ طویل المدتی پالیسیز کا اعلان کرچکے ہیں۔ پاکستان نے ان حملوں کے پیش نظر خوف اور ان پروکسیز کو مزید تحفظ دینے کیلئے فوج نے اپنی مفادات کے تحفظ کیلئے اس کا غم وغصہ مقبوضہ بلوچستان کے سرحدی شہر نوشکی کے گاوں کیشنگی میں ” گوری” کے مقام پر ایف سی نے مقامی لوگوں کو جبری ہجرت کرنے پر مجبور کیا ہیں۔ اور سرحد پر نئی فوجی چوکیاں قائم کرکے خاردار تار و بارودی سرنگیں بچھانی شروع کردی ہیں۔جس کی وجہ سے مقامی لوگوں کی زندگی اجیرن بن چکی ہیں۔ ان کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ان سینکڑوں مقامی لوگوں کی اکثریت کی زریعہ معاش زراعت اور مالداری کے پیشے سے وابسطہ ہیں۔جہاں وہ اپنے آباواجداد کے زمینوں پر صدیوں سے رہائش پزیر ہیں۔پاکستانی فوج انھیں لاوارث سمجھ کر اپنی زمینوں اور گھرانوں سے جبری طور پر دربدر کرنا شروع کیا ہوا ہیں۔ان کی زمینوں کے ساتھ ساتھ سرحد کے آس پاس اپنے بہت سے عزیز و رشتہ داروں سے دور کیا جارہا ہیں۔تازہ ترین صورتحال کے مطابق ان کو روزمرہ زندگی کی اشیاء خردونوش بیماروں کے علاج معالجہ کیلئے دوائی لینے پر سخت مشکلات کا سامنا ہورہا ہیں۔
اب جبکہ امریکہ اور نیٹو کی حملے کی صورت میں پیشگی فوج اور ایف سی نے مقامی بلوچ قبائل کے سینکڑوں گھرانوں کو علاقہ فی الفور خالی کرنے کا حکم دیا ہے۔جس کی وجہ سے سینکڑوں گھرانے بغیر چھت کے اپنے معصوم بچوں کے ساتھ دن و رات بڑی مشکل سے گزار رہے ہیں۔جبکہ عالمی خیراتی اداروں کے تعاون اور ریاست پاکستان کے ماتحت ادارہ پی ڈی ایم اے کےامدادی 2 ٹرک عوام کو دھوکہ اور دکھاوے کی خاطر نوشکی پہنچ گئے ہیں۔ گوری باڈرکے70متاثرین خاندانوں میں معمولی مقدار میں راشن خیمے ودیگرضروری اشیاء تقسیم کردئیے گئے ہیں۔ جو کہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔تاہم گوری باڈرکےمزید200متاثرین خاندان امدادکےاب بھی منتطرھے۔یہ علاقہ وسیع مشکل ترین پہاڑی سلسلوں اور ریگستانوں پر مشتمل ہیں۔گوری کا سرحدی علاقہ نوشکی شہر سے دور ہونے اور فوج و ایف سی کے براہ راست مکمل کنٹرول میں ہونے کی وجہ سے مقامی اور عالمی میڈیا کے توجہ سے محروم رہا ہیں۔ اس وسیع علاقہ میں جو مقامی لوگ بےیارومددگار پڑے ہوئے ہیں۔اور اپنے بچوں کے ساتھ کسمہ پرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔یہاں یہ بات قابل زکر ہیں۔کہ مقامی باشندوں کی اکثریت کا تعلق بلوچ قبائل سے ہیں۔البتہ کچھ پشتون گھرانے بھی یہاں رہائش پزیر ہیں۔
اور یہاں کے لوگ شروع سے لے آج تک زندگی کے بنیادی انسانی ضروریات تعلیم، صحت ،پینے کیلئے صاف پانی ،بجلی وغیرہ سے محروم ہیں۔
بلوچ قوم جو کہ اس سرزمین کے مالک ییں۔ ان کے معصوم بچے بعض اوقات قابل علاج معمولی بیماریاں مثلا بخار،ڈائیریا وغیرہ کے دوران علاج کی سہولیات ناپید ہونے کی وجہ سے ان کی اموات واقع ہوجاتی ہیں۔پورے وسیع علاقے میں دور، دور تک معمولی بیماریوں کی علاج معالجہ کی سہولت کیلئے کوئی چھوٹی سی ڈسپنسری تک میسر نہیں۔جب کہ بڑے بڑے فوجی قلعے بنائے گئے ہیں۔
اس اہم انسانی مسئلے اور پاکستان کی ریاستی سطح پر مظالم کو بلوچ اور دوسرے قوم دوست سیاسی و سماجی کارکن عالمی میڈیا کے زریعے دنیا کو آگاہی دے۔تاکہ اس انسانی بحران سے وقت سے پہلے نمٹا جاسکے۔