کوئٹہ(ہمگام نیوز) آج میں یہاں بلوچ ری پبلکن پارٹی کی طرف سے آپ سب کے درمیان موجود ہوں، چونکہ بلوچستان میں میڈیا سے منسلک لوگوں کے ہاتھ پاؤں اور منہ باندھ دیئے گئے ہیں اسی لیے ہمیں خود چل کر اپنی فریاد آپ حضرات اور دنیا تک پہنچانی پڑھتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی مظلوم بلوچ قوم کی فریاد کوئی سننے کو تیار نہیں۔شائد ہی کوئی ایساصحافی یا انسانی حقوق کا کارکن ہو جسے بلوچستان کے موجودہ تباہ کاریوں کے بارے میں آگاہی نہ ہوں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اکثر صحافی اپنی ذمہ داریاں نبھانے سے قاثر ہیں یا تو ریاست کی جانب سے انہیں خاموش رہنے کی ہدایت کی گئے ہے۔آپ سب جانتے ہیں کہ بلوچستان گزشتہ کئی سالوں سے خونریزی کا منظر پیش کر رہا ہے ، بلوچستان میں انسانی حقوق صرف لفاظی بن کر رہہ گئے ہیں ، بلوچ قوم کی نسل کشی تو گزشتہ کئی سالوں سے جاری ہے لیکن موجودہ دور میں اسے قانونی رنگ بھی دیدیا گیا ہے۔اس نام نہاد جمہوری دور نے وحشیانہ مظالم کے پچھلے تمام ریکارڈز تھوڈ دیئے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جس بھی پارٹی کی حکومت بر سرِاقتدار آتی ہے اسے بلوچ قوم کی نسل کشی سے ہی فوج اور ریاستی خفیہ اداروں سے شاباشی ملتی ہے، کیونکہ پاکستان میں نام نہاد جمہوریت کو کنٹرول کرنے والے سیاستدان نہیں بلکہ اس ملک کے خفیہ ادارے اور فوج ہے۔
صحافی حضرات
بلوچ قوم جب اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی ہے تو اسے دہشتگرد قرار دیکر اسکی نسل کشی کی جاتی ہے۔تاکہ حق کے لیے بلندہونے والی آواز کو دبایا جاسکے جیسے کہ گزشتہ 68سالوں سے کیا جا رہا ہے۔بلوچ جب سیاسی اور پُر امن طریقوں سے اپنے حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کر تے ہیں تو انہیں غیر ملکی ایجنٹ کہہ کر اغواء کر کے لاپتہ کر دیا جاتاہے پر چند سالوں یا مہینوں بعد انکی مسخ شدہ لاشیں بلوچستان یا کراچی کے کسی ویرانے سے مل جاتی ہیں جیسے کہ آمر جنرل پرویز مشر ف کے دور سے چلتا آرہا ہے جس میں اب تک ہزاروں کی تعداد میں بلوچ لاپتہ کر دیئے گئے ہیں اور انہی لاپتہ افراد کی ہزاروں کی تعداد میں مسخ شدہ لاشیں بھی ہمیں تحفے میں مل چکی ہیں۔قدرتی وسائل سے مالامال بلوچستان کے وارث آج پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں ، صحت، تعلیم اور دیگر انسانی ضروریات تو دور کی بات ہیں۔۔۔بلوچستان کے لوگ اپنے علاج کے لیے کراچی کا رخ کرتے ہیں جس میں انہیں ہزاروں کیلومیٹر کا سفر تہہ کرنا پڑتھا ہے ۔ لیکن اسی بلوچستان کے وسائل سے آج پنجاب خوشحال ہے اور وہاں انسانی زندگی سے منسلق ہر ضروریات موجود ہیں ۔میں یہاں آپ لوگوں سے شکوہ کرنے نہیں آئی ہوں ہمیں پتہ ہے ہر غلام قوم کے ساتھ یہی سلوک روا رکھا جاتا ہے لیکن میر ی آپ حضرات سے درخواست ہے کہ خداراں اپنے کیمروں کا رخ بلوچستان کی طرف بھی کیا کریں اگر آپ کے قلم میں سیائی کم نہ پڑجائیں تو کچھ الفاظ بلوچستان کے لیے بھی لکھیے۔
معزز صحافی حضرات
بلوچستا ن کا طول و عرض اس وقت ریاستی فضائیہ اور زمینی فوج کے حملوں کے زد میں ہیں۔ فوجی ٹینک اور جیٹ طیاروں کا استعمال ایسے کیا جا رہا ہے جیسے کسی طاقتور ملک سے لڑائی ہورہی ہو۔مظلوم بلوچوں کے جونپڑیوں اور گھروں کو بمباری کرکے تباہ کیا جا رہا ہے۔لوگوں کے مال مویشیوں کو مالِ غنیمت سمجھ کر لوٹا جا رہا ہے ۔بے گناء لوگوں کے گھروں کو جلایا جا رہا ہے ۔ڈیرہ بگٹی میں گزشتہ کئی ہفتوں سے آپریشن جاری ہے جس میں اب تک کئی افراد اغواء اور شہید ہوچکے ہیں ۔ڈیرہ بگٹی میں جنوری سے شروع ہونے والے فوجی آپریشن جو تاحال جاری ہے میں اب گبرو بگٹی ولدمغیم بگٹی، لطیف بگٹی ولد مندوست بگٹی، علی مراد ولد حضور بخش بگٹی، عاقل ولد ہؤتو بگٹی،جلمب بگٹی ولد گہرام بگٹی، دلشاد ولد نور خان بگٹی، علی مراد ولد نور خان بگٹی، ذر خاتون زوجہ علی مراد، سلمیٰ بی بی، ایاز بگٹی ولد علی مراد، در محمد بگٹی ،جبکہ فروری میں اغواء ہونے والوں کے نام صوبیدار بگٹی ولد منظور بگٹی، الیاس ولدمنظور بگٹی، نوحق ولد ریاض بگٹی، بشیر ولد نور محمد بگٹی ہیں جبکہ شہید ہونے والوں میں شریفوں بگٹی ولد کالو بگٹی، جمال بگٹی ولد تندو بگٹی، رسول بخش بگٹی ولد جلال بگٹی، نبی داد بگٹی ولد، سیفو بگٹی، نصیر بگٹی ولد شاہ میر، سومیر ولد شاہ میر، سازو بگٹی ولد گلاب بگٹی اور فیلا بگٹی شامل ہیں ۔ یہ صرف وہ ریکارڈز ہیں جنکا تعلق صرف ڈیرہ بگٹی سے ہے ۔پاکستانی فورسز نے 31جنوری میں بلوچستان کے علاقے مستونگ میں کاروائی کرتے ہوئے بلوچ نیشنل موومنٹ کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر منان بلوچ کو چار ساتھیوں سمیت شہید کر دیا جسے ہم بلوچ قوم کی نسل کشی کا تسلسل سمجھتے ہیں۔جبکہ ایف سی کے اہلکاروں نے 2فروری میں مند کے علاقے گوبرد سے بلوچ ٹیچر منیر رہشون ولد حاجی صالح کو اغواء کر لیا ہے جو اب تک لاپتہ ہے جس کی بھوڑی ماں اب تک علاقے میں موجود ایف سی کیمپ کے باہر اپنی فریاد لیے بھیٹی ہے۔جبکہ بولان اور قلات کے مختلف علاقوں سے 50سے زائد لوگوں کو اغواء کیا گیا ہے ۔
ہمارے ریکارڈ زکے مطابق بلوچستان میں جنوری 2016سے اب تک 134لوگ اغواء و شہید کیے گئے ہیں۔
اسی طرح پاکستانی فورسز نے ایک جعلی مقابلے کا ڈھونگ رچا کر بلوچ ری پبلکن پارٹی کے کارکنان حنیف ولد گاجیان اور یوسف ولد یونس بلوچ کو 31جنوری کو شہید کر دیا ہے جبکہ حنیف بلوچ 19فروری 2015سے لاپتہ ہے جسے پاکستانی فورسز نے پسنی سے اغواء کیا تھا جبکہ یوسف بلوچ 31 جنوری 2013ء سے لاپتہ تھا جسے پاکستانی فورسز نے بلوچستان کے سائلی علاقے پسنی سے اغواء کیا تھاجبکہ بی آر پی کے مر کزی رہنماء غلام محمد بگٹی جو پاکستانی فورسز نے 19اگست 2015کو اغواء کیا تھا جسے بعد میں 27اگست 2015میں شہید کرکے اسکی مسخ شدہ لاش بولان میں پھینک دی۔
بلوچ ری پبلکن پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں پرریاستی کریک ڈاؤن گزشتہ کئی عرصوں سے جاری ہے جس میں اب تک پارٹی کے اہم عہدیداوں سمیت متعدد کارکنان لاپتہ ہیں ۔بلوچ ری پبلکن پارٹی کے فنائنس سیکٹری ریاض بادینی کو 22 جنوری 2015 کو کوئٹہ سے نوشکی جاتے ہوئے ریاستی فورسز کے اہلکاروں نے اغوا کر کہ لاپتہ کردیا ہے پارٹی کے جونئیر نائب صدر امیر محمد 21 جولائی 2014 سے لاپتہ ہے جن کو قلات اور کوئٹہ کے درمیانی علاقے سے ایف سی اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے اٹھا کر لاپتہ کردیا ہے جس کے بعد سے ان کاکوئی پتہ نہیں ہے جبکہ بی آر پی آواران کے آئرگنائیزر زائد بلوچ بھی پچھلے تین سالوں سے لاپتہ ہے جس کو مشکے سے ریاستی فورسز نے اغوا کرنے کے بعد لاپتہ کردیاتھا پارٹی کے کوئٹہ میں رندگڑ یونٹ کے صدر اور خاتون رہنما حنیفہ بگٹی جو پچھلے پانچ سالوں سے غائب ہے کی آج تک کوئی معلومات نہیں ہے ان کو فورسز کے اہلکاروں نے کوئٹہ میں ان کے گھر سے 20 جنوری 2011 کو ایک چھاپے کے دوران اغواء کیا تھا جبکہ حال ہی میں بلوچ ریپبلکن پارٹی کے سینٹرل کمیٹی کے رکن نزیر جمالدینی کو 27اور 28 جنوری کی رات فورسز نے نوشکی میں ان کوگھر سے اغواء بعد لاپتہ کر دیا ہے ۔17 مارچ 2005 میں پاکستانی فورسز کے کاروائیوں کے دوران ڈیرہ بگٹی میں 70 سے زائد بے گناء لوگوں کو شہید کیا گیا تھا جن میں اکثریت بچوں اور عورتوں کی تھی جس پر آج تک تحقیقات نہیں کی گئی جبکہ انسانی حقوق کے ادارے بھی اس بڑے خونی آپریشن پر آج تک خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں.
شکریہ