کوئٹہ(ہمگام نیوز) بلوچستان یونیورسٹی میں پروفیسر ڈاکٹر شاہ محمد مری نے آج بلوچ مسنگ پرسنز کے دھرنا مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یکجہتی اس وقت ہم سب کا مسئلہ ہے اور آپ کا یکجا ہونا اچھا عمل ہے کہ یہی سیاسی عمل ہے یہ ہمیں یونہی نہیں ملا اس کے لیے لوگ قلی کیمپوں میں سڑتے رہے پھانسی کے تختہ دار پہ چڑھتے رہے دربدر ہوتے رہیں تو اس یکجہتی کو آپ جمہوریت یا اسے کچھ بھی کہہ لیں کوئی بھی نام رکھ لیں کہ یہ جس اسٹیج پہ بھی ہم پہنچے ہیں، یہ سب ہمیں یونہی اللہ واسطے مفت میں نہیں ملا۔
دو نوجوانوں کے لیے تو آپ لوگوں کا یہ احتجاج علامتی ہے۔ یہ کہ یہ نوجوان جبری طور پر اٹھائے گئے ہیں اور یہ ان سب کے لیے ہے کہ بھائی جس کو بھی اٹھاؤ، خواہ وہ غلط ہے، گناہ گار ہے، برا ہے اچھا یے اس کو اپنے ہی قائم کردہ عدالت میں لے آؤ، تم اپنے الزام لگاؤ، اس کواپنی صفائی کا موقع دو، جیسا کہ مہذب دنیا میں ہوتا ہے۔ یہ کوئی افریقہ تو نہیں ہے کہ بندہ اٹھاؤ اور گم کر دو۔
آپ نوجوان جو کچھ بھی کر رہے ہیں یہ جمہوری تحریک کا حصہ ہے۔ بولنا اور حق کے لیے بولنا انسانی خصلت ہے۔ آپ بکری کو کوئی بھی تکلیف پہنچائیں، وہ کچھ نہیں بولتی۔ بھیڑ کو کچھ بھی کہو، وہ شکل خراب نہیں کرتا۔ انسان ردِعمل دیتا ہے۔ اور ایسی غیر انسانی حرکت پر تو انسان لازمی ردِعمل دے گا۔اور یہ پوری دنیا میں مہذب احتجاج ہے اور یہ ردعمل ان لوگوں کو یہ بناتا ہے کہ میں آپ سے خوش نہیں ہوں، مجھے آپ سے تکلیف ہے، اس لیے میں احتجاج پر بیٹھا ہوں۔ آؤ اس پر بات کرتے ہیں۔ اسی طرح آپ لوگ بیٹھے ہیں؛ ٹھنڈ ہے، سرد ہوا ہے، بنا چائے کے، بنا روٹی کے، بنا چار پائی و بستر کے۔ آدمی کو دکھ تو ہوتا ہے، مگر یہ سیاسی پراسیس ہے۔ اس کا جاری رہنا ضروری ہے، تاوقتی کہ اس کا کوئی بہتر نتیجہ نہیں ملتا۔
اگر کوئی پارلیمنٹ ہے، خواہ اصلی ہے یا نام نہاد ہے، ہمارے ووٹوں سے آئی ہے یا ہم پر مسلط کردہ ہے، لیکن یہ پارلیمانی عمل کئی انسانوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے، اس کے وزیروں کو چاہیے کہ آئیں اور جوانوں سے ملیں کہ اور پوچھے کیا مسئلہ ہے۔ دو نوجوان ہی تو ہیں، لے آؤ انہیں عدالتوں میں اور معلوم کرو کہ کیا معاملہ ہے۔ عدالت بھی تمہاری ہے، ہم تو غریب لوگ ہیں، ہماری تو کوئی نہیں سنتا۔ عدالت کو جو تم کہو گے، وہی کرے گی۔ ہمارا مطالبہ پھر بھی اتنا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو اپنی عدالتوں میں لے آؤ اور پیش کرو۔ کم از کم ایک انسانی پراسیس تو ہو، جو ساری دنیا میں ہوتا ہے۔
باقی یہ غنڈوں کی طرح اٹھا لے جانے والا کام کم از کم ریاست کو تو نہیں کرنا چاہیے۔ اس طرح کے تو کئی چور، ڈاکو، اُچکے سماج میں پہلے سے موجود ہیں۔ بڑی بات یہ ہے کہ ایسا کام اگر کوئی فرد بھی کرتا ہے تو اس کے لیے بھی ایک قانون، ایک سزا موجود ہے، اب اگر ریاست خود کھڑے ہو کر یہ کام کرنے لگے- تو لوگ احتجاج تو کریں گے اور بالکل ٹھیک کر رہے ہیں، یہ برحق اور ان کا جائز احتجاج ہے۔ اس میں کچھ غلط نہیں۔ نہ آپ نوجوانوں نے کسی کو کوئی نقصان دیا، نہ کوئی آگ لگائی، نہ کسی کی گاڑی توڑی، نہ کسی کو کچھ کہا۔ آ کر بیٹھے ہیں، خود پہ جبر کیا ہوا ہے
آپ تو ریاست یہ کہہ رہے ہو کہ ہم آپ اس کے اس عمل خوش نہیں ہیں، آپ ٹھیک نہیں کر رہے ہو!
تو اسے جاری رکھیں،ہمت مرداں مدد اے خدا