Homeخبریںبلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے نشتر ہسپتال نامعلوم افراد کے مسخ...

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے نشتر ہسپتال نامعلوم افراد کے مسخ شدہ لاشوں کے برآمدگی پر پریس کانفرنس

کراچی ( ہمگام نیوز) بلوچی یکجہتی کمیٹی کی جانب سے نشتر ہسپتال میں مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ” ‎جیسا کہ آپ کے علم میں ہوگا کہ گزشتہ دنوں سے میڈیا میں ایک خبر گردش کررہی ہے کہ ملتان کے نشتر ہسپتال سے متعدد لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ جن کے حوالے سے اسپتال انتظامیہ و پنجاب حکومت شد و مد سے کام لیتے ہوئے مسئلے کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان لاشوں کے حوالے سے ہسپتال انتظامیہ اور وزیراعلی پنجاب کے ایک مشیر کے موقف میں موجود تضادات نے اس معاملے کو مزید گھمبیر بنادیا ہے۔ وزیر اعلی پنجاب کے مشیر کے مطابق لاشیں سینکڑوں کی تعداد میں ہیں جبکہ ہسپتال انتظامیہ کے مطابق لاشوں کی تعداد چار ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ لاشوں کی تعداد چار ہو یا چار سو لیکن اس حالت میں لاشوں کی برآمدگی کئی سوالات جنم دے رہی ہے اور یہ سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ جبکہ صوبائی سطح پر بنایا جانا والا کمیٹی ایک مزاق کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس طرح انسانی لاشوں کی برآمدگی سے حکومت نے فوری طور پر کارروائی کے بدلے تین تک ہسپتال انتظامیہ کو رپورٹ جمع کرانے کی تاکید کی ہے جو انتہائی شرمناک ہے۔

‎صحافی حضرات

‎جب بھی پاکستان کے کسی بھی حصے میں لاوارث یا نامعلوم لاشیں مل جاتی ہیں تو اس کی شدت بلوچستان میں ضرور محسوس کی جاتی ہے کیونکہ بلوچستان میں ہر وقت اسی طرح مسخ شدہ لاشیں دشت ویران اور ندی نالوں سے برآمد ہوتے ہیں جو لاپتہ افراد کی ہوتی ہیں اور اکثر و بیشتر ان کو نامعلوم قرار دے کر خاموشی سے دفنایا جاتا ہے۔ بلوچستان میں اکثر لاپتہ افراد کو قتل کرنے کے بعد ان کے جسم سے اعضاء نکالے جاتے ہیں اور لاشوں کو ویرانوں میں پھینک دیتے ہیں جبکہ بلوچستان میں اکثر و بیشتر اجتماعی قبریں بھی دریافت ہوتی رہتی ہے جہاں پہلے سے لاپتہ افراد کو مار کر اجتماعی طور پر دفنایا جاتا ہے۔ 2018 میں پنجگور اور 2013 میں توتک سے ایسی قبریں دریافت ہوئی ہیں جہاں درجنوں جبری طور پر لاپتہ افراد کو مار کر دفنایا گیا تھا جس کے سبب حالیہ واقعے سے بلوچستان میں لاپتہ افراد کے اہل خانہ اذیت میں مبتلا ہیں۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کا سپریم کورٹ کی سربراہی میں
‎صحافی حضرات

‎اس سنگین معاملے کو متنازعہ بنانے کے لیے میڈیا میں مختلف بیانیہ سامنے لائے جارہے ہیں۔ ہم یہاں واضح کرتے ہیں کہ لاشیں چار ہو یا چار سو لیکن جس طرح ان کو قتل کرکے ان کے جسم سے اعضاء نکالنے کے بعد نامعلوم قرار دیکر ہسپتال کے چھت پر پھینکنا انسانیت کے خلاف سنگین جرم ہے جس کی فوری طور پر تحقیقات ہونی چاہیے ہے۔ ہم اس پریس کانفرنس کی توسط سے سپریم کورٹ آف پاکستان اور انسانی حقوق کے اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ نشتر ہسپتال سے برآمد لاشوں کی شفاف طریقے سے ڈی این اے ٹیسٹ کرائی جائے اور اس بات کو واضح طور پر سامنے لایا جائے کہ ان لاشوں کو کہاں سے اور کیسے لائی گئ ہیں۔ جبکہ اس واقعے کے ذمہ داران کو قانون کے کہٹرے میں لایا جائے۔ اگر اس مسئلے کو سرد خانے کی نظر کرنے کی کوشش کی گئی یا اس کی شفاف تحقیقات نہیں ہوئی تو اس کے خلاف بلوچستان بھر سے احتجاجی سلسلوں کا آغاز کیا جائے گا۔

Exit mobile version