نیو دہلی (ہمگام نیوز) بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی مرکزی چیئرپرسن با نک کریمہ بلوچ نے انڈین اخبار “ڈی این اے”کو ایک انٹرویو میں کہا کہ بی ایس او آزاد کا انڈین خفیہ ایجنسی “را”سمیت کسی بھی ملک کی خفیہ ایجنسیوں سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں ۔اپنی وطن سے محبت و اس کی تحفظ کیلئے بی ایس او آزاد کو کسی بیرونی قوت سے رجوع کرنے کی ضرورت نہیں ۔بلوچ قومی تحریک کے خلاف جاری کاروائیوں کے دوران ہونے والی جنگی جرائم پرپردہ ڈالنے کے لئے پاکستان بلوچ قومی تحریک کے خلاف پروپگنڈہ کررہی ہے۔انہوں نے کہا کہ بلوچ تحریک عوام کی تحریک ہے جو 27مارچ1948سے جاری ہے ۔بلوچ قومی تحریک کو پراکسی ثابت کرنے کی پاکستانی الزامات کے برعکس دنیا تقریبا اب یہ سمجھ چکی ہے کہ 7دہائیوں سے جاری بلوچ تحریک پراکسی نہیں بلکہ بلوچ عوام کی تحریک ہے ۔انہوں نے مذید کہا کہ بین الالقوامی قوانین ہمیں اس بات کی اجازت دیتی ہیں کہ ہم کسی بھی خارجی جارحیت کے خلاف مذاحمت کرکے اپنا دفاع کریں۔ من گھڑت ڈرامہ بازیاں رچا کر در حقیقت پاکستان لا شعوری طور پر اپنی شکست اور ناکامی قبول کررہا ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں بانک کریمہ بلوچ نے کہا کہ بی ایس او آزاد اپنی قیام سے لیکر آج تک بلوچ طلباء و طالبات اور بلوچ عوام میں سیاسی اور نظریاتی شعور بیدارکرنے کیلئے پرامن طریقے سے جدوجہد کررہی ہے۔بی ایس او آزاد کی قیادت و کارکنان کوپرامن جدوجہد کے باوجود ریاستی ظالمانہ کریک ڈاؤن کا سامنا ہے ۔ریاستی فورسز عام آبادیوں پر یلغار کرکے نہتے و غیر مسلح سیاسی کارکنان کو گھروں میں گھس کر بے دردی سے شہید کرکے انہیں فرضی مقابلوں میں مارنے کا دعوی کرتی ہیں۔ بی ایس او آزاد کے سابقہ سیکریٹری جنرل رضاجہانگیر ،شہید رسول جان،مرکزی کمیٹی کے ممبر کمبر چاکر سمیت کئی لیڈر و کارکنان اسی طرح کی بے رحمانہ پالیسوں کا شکار بنے ہیں۔بی ایس او آزاد کے کارکنان تسلسل کے ساتھ جبری طور پر اغواء ولاپتہ کئے جارہے ہیں ۔ تنظیم کے سابقہ چیئرمین زاہد بلوچ اور ذاکر مجید بلوچ سمیت دیگر سینکڑوں کارکنان ریاستی عقوبت خانوں میں پابند سلاسل ہیں۔ اپنے رہنماؤں کی باحفا ظت بازیابی کے لئے ہم بین الاقوامی حوالے سے احتجاجی مہم بھی چلا چکے ہیں مگر اس کے باوجود وہ اب تک لاپتہ ہیں۔ بی ایس او آزاد کو کالعدم قرار دینے کے حوالے سے بانک کریمہ بلوچ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جاری تحریک کی شدت کو کم کرنے اور اسے ختم کرنے کے لئے تنظیم کی سرگرمیوں سے خائف ریاست نے مارچ 2013کو ہماری تنظیم پر باقاعدہ پابندی عائد کی۔تنظیم پر باقاعدہ پابندی کا مقصد یہ بھی ہے کہ فورسز کارکنان و قیادت کی جبری گمشدگی و ان کے قتل کو قانونی جواز فراہم کرسکے۔بلوچستان پر پاکستان کا قبضہ ہی جبری ہے اس لئے ہمیں قابض سے اجازت نامہ لیکر جدوجہد کرنے کی ضرورت نہیں۔کریمہ بلوچ نے کہا کہ بلوچستان جل رہا ہے، لوگ جبری اغواء کیے جارہے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم انڈین امن پسند عوام سمیت اقوام متحدہ اور دیگر مہذب اقوام سے یہی سے امید رکھتے ہیں کہ مقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی جرائم کے خلاف آواز اُٹھائیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں کریمہ بلوچ نے کہا چونکہ1970میں ایرانی فورسز نے پاکستانی مقبوضہ بلوچستان میں تحریک کو ختم کرنے کے لئے براہ راست پاکستان کی فوجی کمک کی تھی۔لہٰذا پاکستان کا یہ الزام کہ انڈیا ایران کے راستے بلوچستان میں مداخلت کررہاہے جھوٹ پر مبنی ہے ۔ کیوں کہ ایران یہ کبھی نہیں چاہے گا کہ بلوچستان کا مغربی حصہ (ایرانی مقبوضہ) متاثر ہو۔ انہوں نے مذید کہا کہ پاکستان کو اگر واقعی ایسا لگتا ہے تو وہ اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی اداروں اور انٹرنیشنل میڈیا کو جنگ زدہ بلوچستان میں حقیقت سے پردہ اٹھانے کی اجازت دے ۔ لیکن پاکستان ایسا نہیں کرے گی کیوں کہ اس سے بلوچستان میں پاکستان کی جنگی جرائم پر سے پردہ اُٹھ سکتا ہے کریمہ بلوچ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بلوچ عوام کھبی بھی بلوچ وسائل کی استحصال کی اجازت نہیں دیں گے۔چائنا کی بلوچستان میں بھاری سرمایہ کاری کا مقصد معاشی ترقی کو فروغ دینا نہیں بلکہ گوادر پورٹ کو انڈیا اور امریکہ کے خلاف استعما ل کرنا ہے ۔گوادر میں ائیرپورٹ و پورٹ کی تعمیر سے چائنا ہندوستان و امریکہ کے خلاف صف بندی کررہا ہے۔بلوچ تحریک کے خلاف حالیہ کاروائیوں میں چائنا بھی براہ راست شریک ہے۔کریمہ بلوچ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنی سرزمین پر بیرونی سرمایہ کاری و اپنی زمین کو دوسری طاقتوں کے مفادات کی تحفظ کے لئے کسی صورت استعمال نہیں ہونے دیں گے۔پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے حوالے سے بانک کریمہ بلوچ نے کہا کہ مذاکرات کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان بلوچستان پر قبضہ ختم کرکے ہماری علیحدہ شناخت کو تسلیم کرے۔انہوں نے کہا ہم مذاکرات سے کبھی بھی انکاری نہیں رہے ہیں لیکن ہماری مذاکرات بلوچستان کی آزادی اور بین الاقوامی نگرانی پر مشروط ہے۔کریمہ بلوچ نے کہا کہ بلوچستان ایک جنگ زدہ خطے کی صورت اختیار کرچکا ہے۔لیکن ہمیں افسوس ہے کہ دنیا بلوچستان میں ہونے والی جنگی جرائم پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہی ہے۔کریمہ بلوچ نے کہا کہ ہمیں امید ہے دنیا کے مہذب اقوام بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد کی حمایت کرکے اس مسئلے کے حل میں ہمارا ساتھ دیں گی۔ جس طرح بنگلہ دیش، سربیا و جنوبی سوڈان میں مہذب اقوام نے مداخلت کرکے ان کی مدد کی تھی۔