قلات میں پاکستانی فوج کے ونگ کمانڈر کے کانوائے پر ایک فدائی حملے کے نتیجے میں بی ایل اے کی ایک “ جند ندر “ نے کامیابی سے حملہ کرتے ہوئے اپنے ہدف کو حاصل کیا۔

پاکستانی فوج کے ترجمان نے روز مرہ کی طرح حملے کو دہشت گردی سے تعبیر کرتے ہوئے اسے ناکام قراردیا اور کہا کہ یہ عمل بلوچستان کے امن عامہ کو خراب کرنے کی سازش ہے مزید کہا کہ اس حملے میں فوج کے ایک سپاہی کی ہلاکت ہوئی ہے، یہ پاکستانی فوج کا انداز رہا ہے کہ وہ کبھی بھی اپنی کسی اہم اور اعلی اہلکار کی ہلاکت کو پوری طور پر قبول نہیں کرتے اسکی بنیادی طور پر دو وجوہات ہوسکتے ہیں۔

فوج کی ناکامی اگر پاکستانی فوج پوری طور پر اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے ونگ کمانڈر سمیت تمام ہلاکتوں کی تعداد کو منظر عام پر لاتے تو اس سے فوج کی انتظامی و عسکری تیاریوں سمیت انکی طرف سے بلوچستان جیسے جنگی علاقے میں چوکنا رہنے کی ضرورت پر سوالات اٹھائے جاتے اور اس سے نہ صرف پاکستانی فوج کی جگ ہسائی ہوتی، کیڈرز اور ریکروٹس کے نفسیات میں جنگی میلانات اور رجحانات پر ضرب لگتا بلکہ عالمی و علاقائی سطح پر پاکستانی فوج کے پیشہ ورانہ مہارتوں سمیت انکے ادارتی، انتظام و عسکری ضوابط کی پاسداریوں پر سوالات اٹھائے جاتے جو کہ کسی بھی طرح پاکستانی فوج کے پیشہ ورانہ امور سے مطابقت نہیں رکھتا، گوکہ پاکستانی فوجی قوت کی ایک عالم معترف ہے لیکن جس طرح بلوچستان کے اندر پے در پے معرکوں میں پاکستانی فوج کو بلوچ راجی لشکر نے مختلف محاذوں پر ناکوں چنے چبوائے ہیں تو ایسے میں پاکستانی فوج اور اسکے تعلقات عامہ کے ڈپارٹمنٹ کا بلوچستان میں ہونے والے ہر واقعے کے بعد یہ دعوی کہ کوئی نقصان نہیں ہوا یا حملہ ناکام ہوا انکی نقطہ نظر سے پوری اہمیت کا حامل ہوتا ہے تاکہ عوام کی نظر میں اپنی اہمیت و اہلیت سمیت عسکری ادارے کے باوصف اپنی مورال کو بلند رکھا جاسکے۔

بی ایل اے کی کامیابی کسی ہدف کا تعین کرنا، اور اس ہدف کو حاصل کرنے کا فیصلہ کرنا، اسکے لئیے مادی و فکری دونوں بنیادوں پر تیاری کرنا، اس ہدف تک پہنچنا اور اس ہدف کو کامیابی سے حاصل کرنا۔

مندرجہ بالا دو چار نکات میں ہدف کو لاک کرنے سے لے کر ہدف کو کامیابی کے ساتھ حاصل کرنے تک عسکری، انتظامی اور لاجیسٹیکل حوالے سے سینکڑوں امور پر سوچ و بچار کرنا پڑتا ہے، یہ سب تیاریاں کہیں خلاء میں یا کسی دوسرے ملک کی آزاد و محفوظ فضاء میں بیٹھ کر نہیں بلکہ اسی مقبوضہ بلوچستان کے اندر قابض پاکستانی فوج اور اسکے ہرکارے خفیہ ادارے کے کارندوں کے ناک کے نیچے بڑے ہی خاموشی اور رازداری سے انجام دی جاتی ہیں۔

اب قلات میں پاکستانی فوج کے ونگ کمانڈر پر اس نوعیت کا بے کم و کاست اور کامیاب حملہ ہونا بذات خود بی ایل اے کی عسکری چھاپہ مار منظم اصولوں اور انتظامی تیاریوں کو ظاہر کرتا ہے، لہذا کسی بھی صورت پاکستانی فوج نہیں چاہتی کہ وہ اس کامیاب کاروائی کو من و عن تسلیم کرتے ہوئے بلوچ راجی لشکر کی انتظامی و عسکری صلاحیت و اہلیت اور اپنی فوجی ناکامیوں کو از خود جواز بخش دے، لہذا جھوٹی پریس ریلیز اور صحافتی نشستوں میں کذب بیانی ہی آخری سہارا بچ جاتا ہے۔

لیکن قرائن یہی بتاتے ہیں کہ بی ایل اے کے اس حملے میں ہدف کو مکمل طور پر کامیابی سے نشانہ بنایا گیا اور اس “ جند ندریگ “ سے جو نتائج پانے کی کوششیں کی گئیں تھیں وہ پوری ہوگئیں کیونکہ جس طرح اس حملے کے بعد ردعمل سامنے آیا اس سے بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بی ایل اے کا یہ ضرب انتہائی شدید اور تیر با ہدف ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستانی عسکری وانتظامی حلقوں کے لئیے کافی حیران کن اور غیرمتوقع تھا۔

جس طرح بی ایل اے کے ترجمان آزاد بلوچ نے اپنے بیان میں واضح کیا ہے کہ انکی تنظیم کس طرح اور کتنے احتیاط کے ساتھ “ جند ندریگ “ کے لئیے کسی کی خود سپردگی کو قبول کرتے ہیں یہ از خود اس بات کا غماز ہے کہ “ جند ندریگ “ ایک کامل گوریلہ جنگی فلسفہ ہے جس کو کوتاہ بینی، جلد بازی اور نا عاقبت اندیشی کے ساتھ استعمال کرنے سے قومی آزادی کی جد و جہد کے سطح پر فوائد سے زیادہ نقصانات کا احتمال ہونا زیادہ قرین قیاس ہے، لہذا گوریلہ جنگی عمل کے دوران اس انتہائی اہمیت کے حامل “ جند ندریگ “ کو شخصی جذبات، نام و نمود، بین التنظیمی مقابلہ بازی سمیت اسکے خود کی معیار سے کم درجے کی ہدف کے تعاقب میں استعمال اور فوائد و نقصانات کے تناسب کو نظرانداز کرتے ہوئے استعمال کرنا خود اس “ جند ندریگ “ کے فلسفے کی اہمیت و وقعت کو کم کردے گا۔

اسی لئیے بی ایل اے اپنی مضبوط قیادت، منظم پالیسیوں سمیت سخت گیر مرکزیتی گرفت کی وجہ سے جانی اور پہچانی جاتی ہے جہاں ایک عام سپاہی کو اپنی زندگی کی انمول ترین شئے “ لہو “ کو تیاگنے اور “ جند ندریگ “ پر تیار ہونے کے باوجود چار چار چھ چھ سال کی کھٹن انتظار اور وابستگی و پیوستگی کی مشکل ترین امتحان سے گزار کر دیکھا جاتا ہے کہ کہیں وہ اس انتظامی پالیسیوں اور سخت گیر مرکزیت سے راہ فرار تو اختیار نہیں کرتا کیونکہ “ جند ندریگ “ کی عمل کی حجم و جسامت جتنا بلند ہے وہ اس انسان سے جدوجہد آجوئی کے ساتھ ویسے ہی درجے کے وابستگی و کمٹمنٹ کا متقاضی بھی ہے۔

طاقت کا توازن کئی زوایوں سے مختلف عناصر پر منحصر ہوتا ہے، دشمن کی چالیں، اپنوں کی بے اعتنائیاں اور حالات کا جبر سمیت دیگر کئی اندرونی و بیرونی عوامل جہد آزادی کے دوران طاقت کے توازن پر اثرپزیر رہتے ہیں بی ایل اے جس طرح دشمن کی عتاب اور اپنوں کی سازشوں کا شکار رہ کر برسوں سے جو قوت اور توانائی دشمن کے خلاف استعمال کرنے کے لئیے یکجاہ کرچکے تھے اس کو بار بار منتشر کرنے کی منظم کوششیں اندرونی صفوں سے غیر دانشمند ساتھیوں کی طرف سے ہوتی رہیں لیکن چھاپہ مار جنگی اصولوں سے سختی سے وابستگی، اپنی قومی توانائی اور بلوچ اجتماعی قومی قوت پر انحصار کی حکمت عملی، منظم تنظیمی ضوابط سمیت فیصلہ سازی کی مرکزیتی ڈھانچے سے جڑے رہنے کی بنیاد پر ایک بار پھر بی ایل اے نے طاقت کی توازن کو اپنے حق میں موڑتے ہوئے دشمن کو پیغام پہنچایا ہے کہ بلوچ تحریک آجوئی کی از سر نو کامیاب صف بندیاں دشمن کو ماضی کی مثالوں میں کہیں نہیں مل پائیں گی۔

تحریکی تسلسل کے دوران قنوطیت پسندی اور مایوسی کا کوئی تُک نہیں بنتا، اس لمبے اور خارزار سفر میں زادِ سفر انسانی ذہنی و فکری توانائی اور مقصد سے مضبوط وابستگی ہی ہے، بی ایل اے نے گزشتہ کئی سالوں کی تلخ تجربات، اپنوں کی بے اعتنائیوں سے بہت کچھ ازبر کرلیا ہے اور بی ایل اے کی نئی اور منظم بنیادوں پر سامنے والی ہمہ گیر عسکری و چھاپہ مار حکمت عملی بلوچ جہد آزادی کےلئیے ایک روشن نوید ہے۔