سه شنبه, اپریل 22, 2025
Homeخبریںتنظیم کے فیصلے کے مطابق کینڈا گئی ہوں ۔کریمہ بلوچ

تنظیم کے فیصلے کے مطابق کینڈا گئی ہوں ۔کریمہ بلوچ

کوئٹہ (ہمگام نیوز)بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے چیئرپرسن بانک کریمہ بلوچ نے ایک آن لائن نیوز ایجنسی بلوچستان ٹائمز کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا کہ چونکہ وہ ایک ریاست کی قبضہ گیریت کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں، اس ریاست کی میڈیا و عدلیہ سمیت تمام ادارے ریاست کے ستون ہیں جو کہ انہی کی پروگرام و پالیسیوں کے محافظ ہیں۔پاکستانی میڈیا بلوچ قومی تحریک کو غلط رنگ دینے کے لئے منفی پروپگنڈہ کررہی ہے تاکہ بلوچ قومی تحریک کو دیگر طاقتوں کا پراکسی ثابت کیا جا سکے۔ پاکستانی میڈیا چونکہ آزاد نہیں ہے اس لئے وہ ہمارے موقف کو پیش کیے بغیر ہمارے خلاف پروپگنڈہ کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے تنظیم کے فیصلے کے مطابق کینڈا پہنچ گئی ہیں تاکہ بلوچستان میں ہونے والے جنگی جرائم، انسانی حقوق کی پامالیوں، چیئرمین زاہد بلوچ سمیت تمام اسیران کی آواز کو مہذب دنیا تک ایک موثر انداز میں پہنچا سکیں۔ وہ بلوچستان سے کینڈا اپنی زندگی کو بچانے کے لئے نہیں گئی ہیں کیوں کہ مجھے اپنی زندگی اپنی زمین و اپنے مقصد سے زیادہ عزیز نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر دنیا بلوچستان میں آکر بلوچستان کی صورت حال پر آواز بلند نہیں کرتا تو یہ زمہ داری ہماری ہے کہ ہم دنیا کے تمام اداروں کے دروازے کھٹکائیں۔ کریمہ بلوچ نے کہا کہ اجتماعی قبروں کی برآمدگی، سیاسی قیدیوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے و جنگی جرائم کے واقعات میں نہیں سمجھتی کہ معمولی واقعات ہیں، لیکن پاکستان میں ہمیں مسخ شدہ لاشوں کی ڈی این اے ٹیسٹ کی بھی اجازت نہیں کہ ہم یہ جان سکیں یہ کن منتظر ماؤں و بہنوں کے بھائی اور بچے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وہ چیئرمین زاہد بلوچ کی اغواء کا چشم دید گواہ ہیں ، میرے اور تنظیم کے دیگر دوستوں کے سامنے چئیرمین زاہد کو آئی ایس آئی و ایف سی کے اہلکار اُٹھا کر لے گئے، ہماری مسلسل احتجاج کے باوجود بھی وہ ادارے چیئرمین زاہد کی اغواء سے انکار ی
ہیں۔ ، زاکر مجید بلوچ کے اغواء کے خلاف ان کے خاندان نے کیا کیا قربانیاں دی ہیں، ان کی بہن کئی عرصوں سے انکی بازیابی کیلئے احتجاج کررہی ہے، انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ایسی ہزاروں داستانیں ہیں کہ میں ان کا گواہ ہوں۔ یہ میری زمہ داری ہے کہ میں بلوچستان میں ان لوگوں کی آواز بن کرعالمی زمہ دار اداروں کا توجہ بلوچستا ن کی جانب مبذول کراؤں۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ہم ایک ایسی صورت حال کا سامنا کررہے ہیں کہ مغوی کارکنان کی مسخ شدہ لاشیں ان کے خاندان والوں تک سے پہچانے نہیں جارہے ہیں۔ رسول جان بلوچ جوکہ ہماری آرگنائزیشن کا ایک ممبر تھا جنہیں ہاسٹل سے سینکڑوں لوگوں کے سامنے اغواء کیا گیا۔ اغواء کے ایک سال بعد اس کی شدید تشدد زدہ لاش برآمد ہوئی جسے جلایا گیا تھا۔کریمہ بلوچ نے کہا کہ ہماری تنظیم کا مجھے باہر بھیجنے کے فیصلے کا مقصد یہ ہے کہ میں اپنے لوگوں کی آواز بنوں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہاں وہ اپنی جدوجہد کررہے ہیں، وکلاء، و پارلیمانی ممبرز سے بھی ہماری ملاقاتیں رہی ہیں۔چیئرمین زاہد بلوچ ، بلوچستان میں ریاستی فورسز کے ہاتھوں ہونے والے جنگی جرائم سمیت بلوچستان کے تمام توجہ طلب مسائل سے دنیا کو آگاہ کرنے کے لئے ہم ایک احتجاجی مارچ کا بھی پروگرام رکھتے ہیں۔ تاہم کریمہ بلوچ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس مارچ کا باضابطہ اعلان بعدمیں کیا جائے گا۔دولت اسلامیہ کے متعلق ایک سوال کے جواب میں کریمہ بلوچ نے کہا کہ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بلوچستان و افغانستان سمیت جہاں کہیں بھی ایسی شدت پسند گروہیں سر اُٹھا رہی ہیں ، پاکستان ضرور اس میں ملوث ہے۔کیوں کہ ان کی پرورش پاکستان کررہی ہے، کریمہ بلوچ نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ امریکی ریاست کیلیفورنیا میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے خاندان کی جانب سے لوگوں کو قتل کرنے کا واقعہ تازہ ترین مثال ہے۔انہوں نے کہا دوسری طرف چائنا کروڑوں ڈالر سرمایہ بلوچ سرزمین پر لگا رہا ہے۔ کریمہ بلوچ نے کہا کہ اس بات سے چائنا پر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں بلوچ کس قسم کے نقصان سے دوچار ہورہی ہے کیوں کہ چائنا کی سرمایہ کاری بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرنے کا ہے۔چائنا مغرب کے خلاف صف بندی کرنے کے لئے بلوچ سرزمین پر اپنے قدم جما رہی ہے۔انہوں نے کہا وہ نہیں سمجھتی ہیں کہ مہذب ممالک کے سامنے بلوچ تحریک کو تسلیم کرنے اور بلوچ تحریک کی اخلاقی حمایت کرنے کے سوا کوئی دوسرا آپشن بھی موجود ہے، کیوں کہ پاکستان دنیا سے جتنے بھی رقم دہشتگردی کے نام پر حاصل کرے لیکن اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان بدستور مذہبی شدت پسندی کے پھیلاوے کا سبب بن رہا ہے۔آزاد و سیکولر بلوچ ریاست کے بغیر پاکستان عالمی امن کے لئے ایک مستقل خطرہ ہے۔کریمہ بلوچ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ان کے لئے وہ تمام بلوچ خواتین رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں جو کسی نہ کسی طرح سے جدوجہد آزادی سے جُڑے ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز