دبئی ( ہمگام نیوز ) ایرانی اٹارنی جنرل محمد جعفر منتظری کی جانب سے اخلاقی پولیس کے خاتمے کے اعلان کے بعد ایرانی خاتون ایکٹیوسٹ مسیح علی نژاد نے کہا ہے کہ ایرانی حکومت کا یہ اقدام ملک میں بغاوت کو روکنے کے لیے کیا گیا۔
انہوں نے اتوار کو ایک ٹویٹ میں مزید کہا کہ ایرانیوں نے اخلاقی پولیس کا تختہ الٹنے کیلئے نہیں بلکہ حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے گولیوں کا سامنا کیا ہے۔
اخلاقی پولیس جسے مقامی طور پر “گشت ارشاد ” یعنی گائیڈنس پٹرولز کے نام سے جانا جاتا ہے کو سخت گیر سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کے دور میں قائم کیا گیا تھا، اس یونٹ کے قیام کا مقصد مہذب لباس اور نقاب کی ثقافت کو پھیلانا تھا۔
اس یونٹ نے اپنا پہلا گشت 2006 میں شروع کیا تھا۔ اس کے مرد سبز سوٹ اور خواتین چادر میں ملبوس ہوتی ہیں۔
مہسا امینی کی موت
واضح رہے کہ اخلاقی پولیس کی جانب سے سخت ڈریس کوڈ کی مخالفت پر مہسا امینی کو گرفتار کیا گیا۔ گرفتاری کے 3 دن بعد مہسا پولیس حراست میں 16 ستمبر کو انتقال کرگئی جس پر ایرانی عوام نے مشتعل ہو کر مظاہرے شروع کردئیے جو اڑھائی ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری ہیں۔
امینی کی موت کے بعد سے کئی مسائل پر عوام میں غصے کی لہر دوڑ گئی، ان مسائل میں ذاتی آزادیوں پر پابندیاں اور خواتین کے لباس کے حوالے سے سخت قوانین بھی شامل ہیں۔ ایرانی عوام معاشی بحران سے بھی دوچار ہیں جس سے ان کے غصہ میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔