ہمگام نیوز۔ کراچی کی سب سے بڑے تعلیمی ادارے جامعہ کراچی میں سکیورٹی ناکوں اور آرٹس آڈیٹوریم کی تالہ بندی کے باوجود وائس فار مسنگ پرسنز کے چیئرمین عبدالقدیر بلوچ (ماما قدیر) اور ان کے ساتھی طالب علموں کو بلوچستان کی صورتحال سے آگاہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
لاپتہ افراد اور سبین محمود کی یاد میں سیمینار احتجاجی اجتماع میں تبدیل ہو گیا۔
یونیورسٹی انتظامیہ کے احکامات پر صبح سے یونیورسٹی میں غیر متعلقہ افراد کے داخلے پر پابندی عائد تھی، جس کے باعث انسانی حقوق کمیشن کے نمائندوں اور کئی صحافیوں کو داخلی راستے پر روک دیا گیا۔ لیکن وائس فار مسنگ پرسنز کے چیئرمین ماما قدیر بلوچ، فرزانہ مجید، محمد علی ٹالپور اور کچھ صحافی اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
’بلوچ مسنگ پرسنز اور معاشرے اور ریاست کا کردار‘ کے عنوان سے یہ پروگرام آرٹس آڈیٹوریم میں منعقد کیا گیا تھا لیکن اس کو تالے لگا کر بند کر دیا گیا، جس کے باعث یہ تقریب راہداری میں فرشی نشست لگا کر منعقد کی گئی، جبکہ مقررین کے لیے سیمنٹ کی کرسیوں کا انتظام کیا گیا۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین ماما قدیر بلوچ کا کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ریاستی زیادتیوں کا انحراف کرتے ہوئے اس کو بیرونی مداخلت قرار دیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کی حالیہ مثال وفاقی وزیر خواجہ آصف کے بیان سے ملتی ہے جن کا دعویٰ ہے کہ بعض علیحدگی پسند رہنما بھارتی پاسپورٹ پر سفر کرتے ہیں۔ انھوں نے سوال کیا کہ اگر وہ سچے ہیں تو پھر ان ثبوتوں کو بھارت اور دنیا کے دیگر ممالک کے سامنے کیوں پیش نہیں کرتے؟
قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ ’اگر بلوچستان کا مسئلہ بیرونی مداخلت اور بھارت کا پیدا کیا ہوا ہے تو پھر بلوچستان کے ماضی کے زخموں پر مرہم رکھنے کا دعویٰ کیوں کیا جاتا ہے اور بلوچ قومی آزادی کی تحریک میں مصروف قیادت سے مفاہمت اور مذاکرات کی بات کیوں کرتے ہیں؟‘
قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ حکومت بیرونی مداخلت کا نام لے کر خارجی اور اندرونی سطح پر بلوچستان کے مسئلے سے توجہ ہٹانا چاہتی ہے تاکہ بلوچ قومی تحریک کو سفاکانہ ریاستی طاقت سے کچلنے کا جواز فراہم کیا جائے۔
اس تقریب کا آغاز سبین محمود کی تصویر کے سامنے دیئے جلاکر کی گئی۔ لیکن مقررین کی تقاریر کا مرکزی نکتہ بلوچستان کی صورت حال رہی۔
دو سو سے زائد طلبہ اور طالبات نے یہ تقاریر سنیں، لیکن میگا فون کی عدم دستیابی کی وجہ سے سامعین کو دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔
اس تقریب کے ایک مقرر میر محمد علی 1969 میں کراچی یونیورسٹی کے طالب علم رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ سبین محمود کو اس لیے مارا گیا کیونکہ وہ دفاع کرتی تھیں اور یہ دفاع صرف بلوچوں کے لیے نہیں ہے بلکہ عیسائی اور دیگر مظلوم برادریوں کے لیے بھی ہوتا تھا۔
’دفاع پھیلنے والی بیماریوں کی طرح ہوتا ہے۔ حکمران ہم سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ہم دوسرے لوگوں کے ذہنوں کو بھی آلودہ نہ کر دیں اور وہ بھی حق کی بات نہ کریں۔‘
جامعہ کے داخلی راستے سے لے کر آرٹس آڈیٹوریم کے باہر تک رینجرز کی موجودگی رہی، اور دو اہلکار وقفے وقفے سے اجتماع کا چکر بھی لگاتے رہے۔
بی ایس او آزاد کے لاپتہ رہنما ذاکر مجید کی ہمشیرہ فرزانہ مجید کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت شدید تکلیف میں ہیں اور یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ وہ بلوچستان کی تاریخ کا حصہ ہیں۔
’بلوچ سیاسی کارکنوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی جبری گمشدگی بلوچوں کی قبضہ گیری کے خلاف مزاحمت کا عکس ہے۔ پاکستان اس وقت بلوچستان میں پانچ بڑے آپریشن کر چکا ہے جس میں بچوں اور خواتین سمیت ہزاروں لوگ مارے گئے ہیں جبکہ اسی طرح ہزاروں کو اپنے آبائی علاقے چھوڑنے پڑے۔‘
فرزانہ مجید نے کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے اسلام آباد تک مارچ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انھیں ڈرایا دھمکایا گیا لیکن انھوں نے بے فکر ہو کر یہ مارچ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک سال کا عرصہ گزر گیا ہے لیکن کچھ تبدیل نہیں ہوا، جبری گمشدگیاں، تشدد شدہ لاشوں کی برآمدگی اسی طرح سے جاری ہیں جس طرح پہلے تھیں۔
اس پروگرام کے منتظم ڈاکٹر ریاض احمد کا کہنا تھا کہ اسی یونیورسٹی میں کل کوئی بازاری قسم کا پروگرام ہو رہا ہو گا لیکن اس وقت یونیورسٹی انتظامیہ کو اخلاقیات اور اقدار کی کوئی پروا نہیں ہو گی۔ یہ تعلیم کی جگہ ہے اور تعلیمی ادارے کا کام اپنے ہال پانچ ہزار پر کرائے پر دینا نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر ریاض نے واضح کیا کہ وہ بلوچستان کی آزادی کے حمایتی نہیں ہیں۔ ’ہم نے یہ جلسہ کر کے بتا دیا ہے کہ ہم وہ بے حس پاکستانی نہیں ہیں جو بلوچستان میں پنجابی، اردو بولنے والے یا دیگر لوگوں کو مارتے ہیں۔ ہم بلوچوں کے درد میں برابر کے شریک ہیں۔‘