کوئٹہ (ہمگام نیوز)بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن نے بلوچستان میں ہونے والی کاروائیاں کی ماہانہ رپورٹ جاری کردی۔ رپورٹ کے مطابق جون کے مہینے میں بلوچستان میں 56فوجی آپریشن و دیگر کاروائیوں میں 49افراد قتل کیے گئے ہیں، جبکہ 110افراد ان کاروائیوں کے دوران اغواء کیے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق فورسز کے ہاتھوں مختلف جگہوں سے اغواء ہونے والے 29افراد بازیاب بھی ہوئے ہیں جن میں سے بیشتر جون کے مہینے میں ہی اغواء ہوئے تھے۔ جبکہ 2013کو اغواء ہونے والے اعجاز ولد باران اور محراب بلوچ سمیت 2014کو اغواء ہونے والا ایک نوجوان بھی بازیا ب ہوا ہے۔ جون کے مہینے میں 9افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔ بی ایچ آر او کے ترجمان نے کہا کہ بلوچستان ایک جنگ زدہ خطہ ہے۔ طاقت کا استعمال عام لوگوں کو شدید متاثر کررہا ہے ۔ خواتین و بچے بھی اس جنگ کی شدت سے شدید پریشانیوں کا شکار ہیں۔ کئی خاندان ایسے ہیں کہ ان کے واحد کفیل اغواء یا قتل ہو چکے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے مزکورہ خاندانوں کی بہبود کے لئے کسی قسم کا کوئی امدادی پیکیج مختص نہیں کیا گیا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ سب سے تشویشناک بات بلوچستان کے حوالے سے فورسز کے رویے میں سختی ہے۔ فورسز کاؤنٹر پالیسیوں میں خوف کو بطور ہتھیار استعمال کرکے عام لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ جون کے مہینے کی آخری پندرہ دنوں میں فورسز نے مشکے میں 9افراد کی مسخ شدہ لاشیں پھینک دیں جنہیں آبادی کے اندر یکطرفہ فائرنگ سے ہلاک کیا گیا تھا۔ جبکہ حیرت انگیز طور پر فورسز نے میڈیا میں بیان جاری کرتے ہوئے انہیں فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا جو کہ حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔ فورسز کی اس طرح کی کاروائیاں لوگوں کو ذہنی حوالے سے غیر محفوظ بنا چکے ہیں۔ کیوں کہ ان کے سامنے سے لوگوں کو اُٹھا کر گرفتار کرنا اور بعد میں انہیں ہلاک کرنا عام لوگوں پر نفسیاتی حوالے سے منفی اثرات مرتب کررہی ہے۔ بی ایچ آر او نے کہا کہ ایک مہینے کی قلیل مدت میں 110افراد کا اغواء اور 50 کے قریب ہلاکتیں بلوچستان کی صورت حال کو واضح کرنے کے لئے کافی ہیں۔ لیکن اس کے باوجو ر حکومتی نمائندے اس سلسلے کو روکنے کے بجائے اپنے پریس ریلیز میں فورسز کی کاروائیاں کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں جو کہ فورسز کو عام لوگوں کو شک کی بنیاد پر قتل کرنے کی اجازت دینے کے مترادف ہے۔بی ایچ آر او نے کہا کہ اندرون بلوچستان لوگوں کی بڑی تعداد میں نکل مکانی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، لیکن حکومت بلوچستان میں اپنی زمہ داریوں سے مکمل طور پر دستبردار ہو چکی ہے۔ بلوچ عوام کو فورسز کی رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ فورسز نے جھاؤ، آواران، پروم، مکران کے علاقوں دشت، تمپ اور جھاوالان سمیت کوہلو و ڈیرہ بگٹی کے علاقوں سے لوگوں کو زبردستی نکل مکانی پر مجبور کیا ہے۔ صرف جھاؤ کے کوہڑو، دارو کوچگ، ڈولیجی، زیلگ سمیت مختلف علاقوں 300کے قریب خاندانوں کے ہزاروں افراد نے نکل مکانی کی ہے۔ بی ایچ آر او نے مقامی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی اداروں سے اپیل کی کہ وہ بلوچستان میں جاری جنگ سے متاثرہ لوگوں کی آباد کاری اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے اپنا فوری کردار اادا کریں۔