چهارشنبه, سپتمبر 25, 2024
Homeخبریںجیو نیوز سے منسلک صحافی علی عمران سید گذشتہ روز کراچی سے...

جیو نیوز سے منسلک صحافی علی عمران سید گذشتہ روز کراچی سے لاپت

 

کراچی (ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹس کے مطابق پاکستان کے نجی نیوز چینل ‘جیو’ سے منسلک صحافی علی عمران سید گذشتہ روز کراچی میں لاپتہ ہو گئے ہیں۔

جیو نیوز کے مینیجنگ ڈائریکٹر اظہر عباس نے رات گئے ایک ٹوئٹ میں بتایا کہ ہمارا رپورٹر علی عمران سید چھ گھنٹوں سے لاپتہ ہے۔

ان کی اہلیہ کے مطابق علی پیدل قریبی بیکری پر گئے لیکن اب تک نہیں لوٹے۔ جیو اور ان کے خاندان نے پولیس کو اطلاع کر دی ہے ہم ان کی جلد اور بحفاظت بازیابی کی امید کرتے ہیں۔

کراچی میں جیو نیوز کے بیورو چیف فہیم صدیقی کا کہنا ہے کہ پولیس نے واقعے کی درخواست وصول کی ہے ابھی ایف آئی آر نہیں کاٹی گئی۔

انھوں نے بتایا کہ ’علی عمران کا گھر گلستانِ جوہر میں ہے۔ پولیس نے رات کو ہم سے درخواست تو لے لی تھی لیکن اب صبح ہو چکی ہے اب تک ایف آئی آر نہیں کاٹی گئی۔

سندھ حکومت نے واقعے کا نوٹس لے لیا ہے جبکہ پاکستان میں صحافتی تنظیم پی ایف یو جے نے علی عمران کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ بصورتِ دیگر پارلیمنٹ ہاؤس کے سامن احتجاج کیا جائے گا۔

سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے اپنی ٹوئٹ میں بتایا ہے کہ علی عمران سید کی رہائی کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ’وزیراعلیٰ سندھ نے واقعے کا نوٹس لے لیا ہے اور آئی جی سندھ سے بات کی ہے۔ معاملے کی تحقیقات جاری ہیں۔ آپ کو پیش رفت کے حوالے سے آگاہ کیا جائے گا۔‘

علی عمران کی اہلیہ کی ویڈیو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر شیئر کی جا رہی ہے جس میں انھوں نے بتایا کہ’ گھر سے کہہ کر گئے تھے کہ میں آدھے گھنٹے میں آ رہا ہوں۔ اس کے بعد سے ابھی تک نہیں آئے۔ ان کا موبائل گھر پہ ہے گاڑی بھی گھر کے باہر کھڑی ہے۔’

سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو میں ان کی اہلیہ نے بتایا کہ وہ کیا کہہ کر نکلے تھے آپ سے تو انھوں نے بتایا کہ علی نے مجھے کہا کہ میں ابھی آرہا ہوں بسکٹ لے کر۔

خاتون کہتی ہیں کہ بیکری سڑک کے کونے پر ہے وہاں سے جو رستہ ہے وہ آدھے گھنٹے سے زیادہ کا نہیں ہے۔

جیو نیوز کے مطابق گورنر سندھ نے آئی جی سندھ سے رپورٹ طلب کی ہے۔

علی عمران سید کی گمشدگی کی اطلاع ٹویٹر پر شیئر کی جا رہی ہے جب کہ اس وقت ان کی واپسی کے مطالبے کے ساتھ ایک ہیش ٹیگ #BringBackAliImran بھی ٹرینڈ کر رہا ہے۔

علی عمران وہی صحافی ہیں جنھوں نے کیپٹن صفدر کی گرفتاری کی ویڈیو جاری کی تھی۔

زیادہ تر صارفین ان کی اہلیہ کی ویڈیو ری ٹویٹ کر رہے ہیں۔

صحافی نسیم زہرہ نے ان کی گمشدگی کی مذمت کی اور لکھا کہ کیا آپ انھیں اغوا کیے بغیر ان سے سوال نہیں کر سکتے تھے؟ کیا اغوا پہلے سے معلوم حقائق کو دوبارہ بنانے میں مدد دے گا۔‘

خیال رہے کہ نجی ہوٹل سے کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے معاملے پر سندھ میں اعلیٰ سطح پر تحقیقات کی جا رہی ہیں جن کی رپورٹس آنا ابھی باقی ہے۔

جیو نیوز سے منسلک سینئر جرنلسٹ مدثر سعید نے اپنے سوالات میں کہا کہ کیپٹن صفدر کی گرفتاری کیسے ہوئی، 46 منٹ کے آپریشن میں کانڈ کون کر رہا تھا، ہوٹل باہر سے بلاک کس نے کیا ہوا تھا، فون پر ہدایات لینے والا سفید بوٹوں والا کون تھا۔

مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز نے اپنے ایک میڈیا بیان میں کہا ہے کہ ’اغوا کر کے اور لوگوں کو حق اورسچ بولنے کی سزا دے کر مزید بدنامی نہ کمائیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ’جس طرح آپ نےآئی جی کواٹھایا، جیسے آپ نے پولیس فورس کوصوبے کو انڈرمائن کیا۔آپ نے بہت زیادہ بدنامی کمالی ہے۔‘

جنوبی ایشیا میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ علی عمران کے بارے میں فوری طور پر پتہ لگائیں وہ کہاں ہیں۔

ٹوئٹر پر اپنے بیان میں ادارے کا کہنا ہے کہ ’جیو نیوز کے صحافی علی عمران گذشتہ روز سے کراچی میں لاپتہ ہیں۔ یہ خدشہ ہے کہ انھیں ان کی رپورٹنگ کی وجہ سے زبردستی لاپتہ کیا گیا ہے۔‘

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی اپنے ردعمل میں صحافی علی عمران کی گمشدگی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

صحافی مبشر زیدی نے لکھا کہ علی عمران نے فلسطین اور برما جا کر رپورٹنگ کی لیکن اسرائیلی فوج نے انھیں اغوا نہیں کیا اور برما سے بھی وہ بچ نکلے تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’اپنے شہر میں رپورٹنگ کی سزا یہ ملی کہ پیشہ ور اغوا کاروں نے اغوا کر لیا۔‘

صحافی و اینکر پرسن سلیم صافی نے ٹوئٹ کی کہ بہتر ہے پاکستان کا نام اغوانستان رکھ لیں۔ یاد رکہیے اناؤں کی تسکین کے لیے اغواؤں کا یہ سلسلہ جاری رہا تو اس ملک کو خانہ جنگی سے کوئی نہی روک سکے گا۔

ان کی ٹویٹ کو ری ٹوئٹ کرتے ہوئے ایک اور سینئیر صحافی فہد حسین نے اس خبر پر حیرت اور صدمے کا اظہار کیا اور ان کی رہائی پر زور دیتے ہوئے لکھا کہ صحافت جرم نہیں ہے۔

اینکر پرسن ارشد شریف نے بھی لکھا کہ لگتا ہے علی عمران کو بطور صحافی ڈیوٹی سرانجام دینے پر زبردستی لاپتہ کیا گیا ہے۔

صحافی احمر خان نے اپنے ردعمل میں کہا کہ پاکستان صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ممالک میں شامل ہے۔

صحافی عاطف توقیر نے اپنے ردعمل میں ایک طنزیہ ٹویٹ کی اور لکھا کہ اہلِ خانہ جب علی عمران کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروانے گئے ہوں گے تو پولیس نے ضرور کہا ہو گا کہ ہمارا تو اپنا آئی جی اغوا ہو چکا ہے ہم آپ کو کیا خاک تحفظ دیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز